بھارتی ریاست مہاراشٹرا کے جنگل میں بدھ مت راہب جنگل میں عبادت کے دوران ایک تیندوے (لیپرڈ) کے حملے میں ہلاک ہوگئے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ جنگل میں تیندوے کی جانب سے حالیہ چند ہفتوں میں کیا جانے والا اس نوعیت کا پانچواں حملہ ہے۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق راہول والکے بودھی نامی راہب بھارت کے مغربی علاقے میں واقع رام دیگی جنگل میں صبح کی عبادت کے لیے درخت کے نیچے بیٹھے تھے جب تیندوے نے ان پر اچانک حملہ کیا۔

پولیس کے مطابق 35 سالہ بدھ مت راہب تیندوے کے حملے میں جان لیوا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوئے۔

جیسے ہی تیندوے نے راہب پر حملہ کیا ان کے ہمراہ موجود دیگر 2 عقیدت مند فوری طور پر پولیس کو آگاہ کرنے اور مدد طلب کرنے کے لیے روانہ ہوئے تھے جس کے بعد پولیس نے ان کی لاش کی تلاش شروع کی تھی۔

مزید پڑھیں : گائے ذبح کرنے کے خلاف مظاہرے، پولیس اہلکار سمیت 2 افراد ہلاک

علاقے کے سینئر پولیس افسر کرشنا تیواری نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ ان کی لاش جنگل میں تھوڑا آگے جا کر مل گئی تھی جس کا مطلب تھا کہ جانور نے انہیں اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی تھی‘۔

ریاستی دارالحکومت ممبئی کے مغرب سے 825 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعے جنگل میں شیروں کے لیے مختص علاقے میں حالیہ چند ہفتوں میں اس سے قبل 4 جان لیوا حملے کیے گئے تھے۔

پولیس نے بتایا کہ علاقے میں سالانہ عبادت کانفرنس کے لیے آنے والے مذہبی افراد نے مقامی عہدیداران کی جانب سے جنگل میں زیادہ دور جانےکی وارننگ نظر انداز کی تھی۔

حادثے سے ایک روز قبل دکاندار سندیپ ارجن جنگل کی حدود میں واقع اسٹال کے باہر حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ ان دونوں حملوں کا ذمہ دار ایک ہی تیندوا تھا یا نہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ تیندوؤں اور چیتوں کے حملوں میں مزید 3 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں : افغان لڑکے اور ہندوستانی لیپرڈ

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں اس وقت 12 ہزار سے 14 ہزار تیندوے موجود ہیں۔

شہری آبادی میں اضافے اور جنگلات کا علاقہ کم ہونے کی وجہ سے تیندوؤں کی تعداد میں کمی آئی ہے، اسی وجہ سے آئے دن یہ انسانوں سے ٹکراتے ہیں۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 2017 میں 4 سو 13 تیندوں کو مارا گیا تھا جن میں سے اکثر کو شکاریوں نے ان کی کھال حاصل کرنے کے لیے شکار کیا تھا۔

تاہم تیندوؤں کے حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد سے متعلق کوئی ڈیٹا موجود نہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ہرسال ان حملوں میں سیکڑوں اموات ہوتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں