بھارت: نصیر الدین شاہ کے خلاف مظاہرے، اجمیر لٹریچر فیسٹیول کا افتتاح منسوخ

اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2018
بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ — فائل فوٹو
بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ — فائل فوٹو

بولی وڈ کے لیجنڈ اداکار نصیر الدین شاہ نے تین روزہ اجمیر لٹریچر فیسٹیول (اے ایل ایف) کے پانچویں ایڈیشن کا افتتاح کرنا تھا جسے ان کے حالیہ بیان پر انتہاپسند ہندوؤں کے احتجاجی مظاہرے کی وجہ سے منسوخ کردیا گیا۔

پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق بولی وڈ کے ورسٹائل اور میگا اسٹار اداکار نصیر الدین شاہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں بھارت میں ہجوم کی اشتعال انگیزی اور تشدد سے متعلق بیان دیا تھا جس پر دائیں بازو کے گروہوں کی جانب سےاحتجاج کیا گیا۔

نصیر الدین شاہ نے رواں ماہ کے آغاز میں بلند نامی شہر میں مشتعل ہجوم کے تشدد سے پولیس اہلکار کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک گائے کو ذبح کیے جانے کو پولیس اہلکار کے قتل سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

اس بیان کی وجہ سے بھارتی اداکار کو انتہا پسند ہندوؤں کے غم و غصے کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مزید پڑھیں : بھارت میں بچوں کی حفاظت اور مستقبل کیلئے پریشان ہوں، نصیرالدین شاہ

نصیر الدین شاہ نے لٹریچر فیسٹیول سے خصوصی خطاب کرنا تھا، اس سے قبل انہوں نے اپنی مادر علمی سینٹ اینسلمز سینئر سیکنڈری اسکول کا دورہ کیا تھا جہاں ان سے حالیہ بیان پر سوشل میڈیا پر کی جانے والی تنقید سے متعلق سوال بھی کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ’ جو میں نے کہا وہ صرف ایک پریشان بھارتی ہونے کی حیثیت سے کہا، میں اس سے قبل بھی ایسا کہہ چکا ہوں، اس مرتبہ میں نے ایسا کیا کہہ دیا جو مجھے غدار کہا جارہا ہے، یہ بہت عجیب ہے‘۔

تاہم فیسٹیول کے آغاز سے قبل ہونے والے احتجاج کی وجہ سے نصیر الدین شاہ کی کتاب کی تقریب رونمائی بھی منسوخ کردی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’ مجھے تنقید برداشت کرنی ہے، اگر ان کے پاس تنقید کرنے کا حق ہے تو پھر مجھے بھی یہ حق حاصل ہے ، میں اس ملک سے متعلق تشویش کا اظہار کررہا ہوں جس سے مجھے محبت ہے، جو ملک میرا گھر ہے، یہ ایک جرم کیسے ہوسکتا ہے؟‘

نصیر الدین شاہ نے کارروان محبت انڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مشتعل ہجوم کی بڑھتے ہوئے تشدد اور انتہا پسندی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : بھارت: گائے ذبح کرنے کے خلاف مظاہرے، پولیس اہلکار سمیت 2 افراد ہلاک

کارروان محبت انڈیا نے اس انٹرویو کو اپنے یوٹیوب چینل پر 17 دسمبر کو شیئر کیا تھا۔

انٹرویو میں نصیر الدین شاہ نے کیا تھا کہ انہوں نے اپنے بچوں کی حفاظت پر تشویش کا اظہار کیا تھا جنہیں کسی خاص مذہب کی تعلیم نہیں دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ کل اگر کوئی ان کے بچوں کا راستہ روک کر ان سے پوچھے کہ وہ مسلمان ہیں یا ہندو تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔

نصیر الدین شاہ نے کہا تھا کہ ’ بھارت میں نفرت کا زہر پھیل چکا ہے اور اب اس جن کو قابو کرکے بوتل میں واپس ڈالنا بہت مشکل ہوگا‘۔

نصیر الدین شاہ نے کہا تھا کہ ’ یہاں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والے بے خوف ہیں، اکثر علاقوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک گائے کا ذبح ہوجانا پولیس والے کی جان سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ‘۔

اجمیر لٹریچر فیسٹیول کے آغاز سے قبل دائیں بازو کے کارکنان نے پروگرام کے مقام کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا، مظاہرین میں شامل ایک شخص نے نصیر الدین شاہ کی پوسٹر پر سیاہ انک بھی پھینکی تھی۔

فیسٹیول کے منتظم راس بہاری غور نے کہا کہ ‘ نصیر الدین شاہ نے فیسٹیول کا افتتاح کرنا تھا لیکن وہ نہیں آئے کیونکہ ان کے حالیہ بیان پر مقامی افراد کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا'۔

مزید پڑھیں : نصیرالدین شاہ کے دلچسپ انکشافات

افتتاحی تقریب کے بعد نصیر الدین شاہ کی کتاب کی رونمائی بھی ہونی تھی لیکن وہ بھی احتجاج کی وجہ سے منسوخ کردی گئی۔

انہوں نے کہا کہ تاہم فیسٹیول کا آغاز 21 دسمبر کو ہی ہوا جو 23 دسمبر کو اختتام پذیر ہوگا۔

خیال رہے کہ 3 دسمبر کو اترپردیش کے بلند نامی شہر میں لوگوں نے گائے کی بغیر سر کی لاش ملنے پر اسے ٹریکٹر میں لاد کر چنگراوتی پولیس تھانے پہنچایا تھا۔

جس کے بعد ہجوم کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں پولیس انسپیکٹر سوبودھ کمار سنگھ اور ایک نوجوان سمت کمار ہلاک ہوگئے تھے۔

مذکورہ واقعہ میں مقامی تنظیم بجرنگ دل کے رہنما یوگیش راج کو قرار دیا جارہا ہے، اس تنظیم نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے الحاق کیا ہوا ہے۔


یہ خبر 23 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں