کراچی: میڈیکل کی طالبہ کے قتل کا مقدمہ مبینہ ڈکیتوں کے خلاف درج

اپ ڈیٹ 24 فروری 2019
پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا — فائل فوٹو/اے ایف پی
پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا — فائل فوٹو/اے ایف پی

کراچی پولیس نے نارتھ کراچی میں پولیس اور مبینہ ڈکیتوں کے درمیان مقابلے کے دوران فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہونے والی طالبہ کے قتل کا مقدمہ 4 مشتبہ ڈکیتوں کے خلاف درج کرلیا۔

ڈان نیوز کو موصول ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ ( ایف آئی آر) کی نقل کے مطابق پولیس مقابلے، قتل، اقدام قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مشتبہ ڈاکووں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مذکورہ ایف آئی آر پولیس کانسٹیبل عدنان کی مدعیت میں سرسید پولیس تھانے میں درج کی گئی جبکہ کانسٹیبل عدنان نور جہاں پولیس تھانے میں تعینات ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کانسٹیبل عدنان نارتھ ناظم آباد بلاک 'کے' میں قائم فاروق اعظم مسجد کے قریب دیگر اہلکاروں کے ساتھ گشت پرمامور تھے جب انہوں نے 2 موٹر سائیکلوں پر سواروں کو مشکوک جان کر رکنے کا اشارہ کیا لیکن مشتبہ افراد نے رکنے کے بجائے پولیس پر فائرنگ کی اور فرار ہونے کی کوشش کی۔ ۔

مزید پڑھیں: کراچی: پولیس کا 'ڈکیتوں' سے مقابلہ، میڈیکل کی طالبہ جاں بحق

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے ملزمان کا تعاقب کیا لیکن ان میں سے ایک موٹر سائیکل پر سوار ملزمان سخی حسن چورنگی کے قریب ٹریفک کے باعث وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔

پولیس کانسٹیبل نے کہا کہ اہلکاروں نے دوسری موٹر سائیکل کا تعاقب جاری رکھا جو انڈا موڑ کی طرف گئی تھی جہاں ایک مرتبہ پھر ملزمان کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

ایف آئی آر کے مطابق دونوں ملزمان فائرنگ کے دوران زخمی ہوگئے تھے بعد ازاں ان میں سے ایک زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا تھا۔

پولیس نے دونوں مشتبہ ملزمان کے قبضے سے 2 پستول بھی برآمد کیں۔

ایف آئی آر کے مطابق بعد ازاں پولیس کو ایک لڑکی ملی جو فائرنگ کے تبادلے کے دوران زد میں آکر شدید زخمی ہوگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: پولیس مقابلے میں 10 سالہ بچی کی ہلاکت پر چیف جسٹس کا ازخود نوٹس

خیال رہے کہ پولیس نے دعویٰ کیا کہ طالبہ کو لگنے والی گولی ڈکیتوں کی جانب سے چلائی گئی تھی جبکہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں پتہ چلا کہ گولی سر پر لگی تھی جس کو ’انتہائی تیز رفتار ہتھیار‘ یا رائفل سے فائر کی گئی تھی جو کہ عموماً پولیس کے استعمال میں ہوتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق ڈکیتوں کی جانب سے عام طور پر استعمال کی جانے والی پستول کو ’انتہائی تیز رفتار‘ ہتھیار قرار نہیں دیا جاسکتا ۔

پولیس عہدیدار نے کہا کہ ایک تحقیقاتی ٹیم معاملے کی تفتیش کررہی ہے، انہوں نے کہا کہ دونوں مشتبہ افراد کا تعلق رحیم یار خان سے تھا۔

گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے میڈیکل کی طالبہ کے جاں بحق ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو نمرا کے انتقال کی وجوہات کی تفتیش کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں