ایف آئی اے نے نیب کے اختیارات مانگ لیے

اپ ڈیٹ 09 اپريل 2019
ایف آئی اے کو ریکارڈ بروقت نہیں ملتا جس کے باعث تحقیقات التوا میں پڑجاتی ہیں—تصویر بشکریہ فیس بک
ایف آئی اے کو ریکارڈ بروقت نہیں ملتا جس کے باعث تحقیقات التوا میں پڑجاتی ہیں—تصویر بشکریہ فیس بک

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف ائی اے) نے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب کے اختیارات مانگ لیے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمیں راجا خرم نواز کی سربراہی میں ہوا جس میں ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل بشارت محمود نے ادارے کی کارکردگی پر بریفنگ دی۔

ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ اینٹی منی لانڈرنگ قانون میں بہت خامیاں ہیں جس کی وجہ سے نتائج نہیں مل پاتے اینٹی منی لانڈرنگ قانون میں ترامیم ضروری ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے نے سائبر کرائم کی روک تھام کیلئے خصوصی اختیارات مانگ لیے

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی اے کو ریکارڈ بروقت نہیں ملتا جس کے باعث تحقیقات التوا میں پڑجاتی ہیں۔

ایف آئی اے کو بینک سے ریکارڈ درکار ہوتا ہے تو اس کے سیشن جج سے اجازت لینی ضروری ہے جسے حاصل کرنے میں کئی ماہ بھی لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سیشن جج ریکارڈ تک رسائی کی اجازت نہیں دیتے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو کسی بھی ادارے سے ریکارٖڈ حاصل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

لہٰذا ایف آئی اے کو بھی سرکاری ریکارڈ تک رسائی کا وہی اختیار ملنا چاہیئے جو نیب کے پاس ہے۔

جس پر کمیٹی ارکان نے اعتراض کرتے ہوئے سوال کیا کہ اگر نیب کے پاس یہ کالا قانون ہے کہ اس کے اختیار کی کوئی حد نہیں تو آپ (چاہتے ہیں کہ آپ) کو بھی مل جائے؟

مزید پڑھیں: ایف آئی اے تحقیقات کا خوف، ایس ای سی پی نے اپنی تفتیش روک دی

ارکان کمیٹی کا مزید کہنا تھا کہ اگر ریکارڈ حاصل کرنے کا ایک طریقہ کار ہے تو آپ کو اس پر عمل کرنے میں کیا قباحت ہے۔

جس پر ایف آئی حکام نے بتایا کہ جو ریکارڈ ہمیں 6 ماہ بعد ملتا ہے وہ اگر 6 دن میں مل جائے تو تحقیقات تیزی سے آگے بڑھ سکتی ہیں۔

بے نامی اور جعلی بینک اکاؤنٹس پر بریفنگ

علاوہ ازیں اجلاس میں ایف آئی اے حکام نے اراکین کمیٹی کو بے نامی اور جعلی بینک اکاؤنٹس کی تشریح پر بریفنگ بھی دی۔

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دو طرح کے اکاؤنٹس ہیں، ایک جعلی اور دوسرا بے نامی اکاؤنٹ، حقیقت میں کوئی بھی بینک اکاؤنٹ بے نامی نہیں ہوتا اس کا کوئی نہ کوئی نام ضرور ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کے پاس صرف 10 ماہرین کی موجودگی کا انکشاف

ان میں سے جعلی اکاؤنٹ یہ ہے کہ بندہ فوت ہو گیا اور اکاؤنٹ چل رہا ہے، دوسرا بے نامی اکاؤنٹ ہے اس میں اکاؤنٹ ہولڈر کی ٹرانزیکشنز آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتی۔

ایف آئی اے کے مطابق بے نامی اکاؤنٹ میں جس کے نام کا اکاؤنٹ ہوتا ہے وہ نہ اس کا بینیفشری ہوتا نہ ہی خود اسے آپریٹ کرتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ایک چائے والا یا فالودے والا ہے وہ کبھی بینک گیا ہی نہیں تو اس کا اکاؤنٹ کس طرح کھل گیا، ایسے اکاؤنٹ کھولنے میں بینکر کا ملوث ہونا یقینی ہے، بات دراصل یہ ہے کہ جس بینک مینجر یا عملے نے یہ کام کیا اس کو قانون کیا سزا دے رہا ہے۔

ایف آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ انسدادِ منی لانڈرنگ قانون کے تحت بینک ایسے مشکوک اکاؤنٹس اور ٹرانزیکشنز کی رپورٹ کرتے ہیں تاہم گزشتہ کچھ سالوں میں بینکوں نے متعلقہ ادارے کو محض 5 سو کے قریب ایسے معاملات رپورٹ کیے ہیں۔

مزید پڑھیں: بینکنگ فراڈ: ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک حکام کی رائے میں اختلاف

جس پر اراکین کمیٹی نے دریافت کیا کہ اگر بے نامی اکاؤنٹس میں بینک ملوث ہوتا ہے تو ان ملازمین کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔

ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ہماری ہر انکوائری میں کم از کم ایک یا 2 بینکرز لازمی ملزم ہوتے ہیں جبکہ کئی مرتبہ ہم نے اس قسم کے معاملات میں بینک کے صدر کو بھی ملوث پایا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب بینک کا صدر آپ کے ساتھ ہو تو آپ جو مرضی چاہیں کرسکتے ہیں جس پر کمیٹی اراکین نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹیرینز کا تو کوئی کریڈٹ کارڈ تک بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں