پاکستان میں خواتین رضاکاروں کی اکثریت کو آن لائن بد سلوکی کا سامنا

اپ ڈیٹ 25 اپريل 2019
91 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ یہ استحصال صنفی بنیادوں پر کیا جاتا ہے — تصویر: شٹر اسٹاک
91 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ یہ استحصال صنفی بنیادوں پر کیا جاتا ہے — تصویر: شٹر اسٹاک

کراچی: ڈیجیٹل سروے کے مطابق 55 فیصد خواتین صحافیوں، سوشل میڈیا پر متحرک اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی رضاکاروں کو آن لائن ہراساں اور بدسلوکی کا سامنا ہے۔

اس کے علاوہ 91 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ یہ بدسلوکی صنفی بنیادوں پر کی جاتی ہے اور ذاتیات پر ہوتا ہے جبکہ 85 فیصد کا کہنا ہے کہ آن لائن بدسلوکی اکثر فرضی اکاؤنٹس کے ذریعے کی جاتی ہے۔

مذکورہ اعداد و شمار، خواتین اور آزادی اظہارِ رائے کے خلاف آن لائن اشتعال انگیزی پر کام کرنے والی تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی رپورٹ میں سامنے آئے، جس کا عنوان تھا ’پاکستان میں سازگار فضا کو فروغ دینا-خواتین کے متحرک ہونے کو لاحق آن لائن خطرات کا سدِباب کرنا‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں 2018 میں آن لائن اظہار رائے پر قدغن رہی، رپورٹ

مذکورہ رپورٹ کے نتائج ملک کے مختلف حصوں میں کام کرنے والی ان 60 خواتین کے تجربات سے اخذ کیے گئے ہیں جنہوں نے آن لائن استحصال کا مشاہدہ کیا یا جنہیں اس کا نشانہ بنایا گیا۔

رپورٹ کے مطابق خواتین کو ڈرانے دھمکانے کا طریقہ کار عورت کے لیے نفرت سے شروع ہو کر ہراساں کیے جانے اور خواتین کے پیچھے پڑنے سے لے کر ان کی نگرانی کرنے تک پھیلا ہوا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق، جو آن لائن بھی میسر ہے، اس کا مجموعی اثر دھمکیوں کے ذریعے خواتین کے آزادی اظہارِ رائے، ذاتی معاملات اور ان کے متحرک ہونے کو خوفزدہ، ہراساں کرنا اور ان کی نفی کرنے کی صورت میں پڑتا ہے۔

ایک جانب یہاں خواتین کو لاحق یہ خطرات صاف عیاں ہیں وہیں دوسری جانب پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے متحرک ہونے اور آن لائن مقامات پر ان خطرات کے اثرات کا بھی تجزیہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: 68 فیصد پاکستانی صحافی انٹرنیٹ پر خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں

ڈی آر ایف کی سربراہ نگہت ڈار نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ ’عمومی طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ کس طرح خواتین کو ان کے متحرک ہونے کی وجہ سے آن لائن نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ آن لائن یا آف لائن کسی بھی مقام پر خواتین کی رائے نہیں سنی جاتی اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح انہیں مسلسل ہراساں کیا جاتا اور آن لائن، ان کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عدم حمایت کے سبب خواتین آن لائن بدسلوکی کے حوالے سے شکایات درج کروانے کے لیے خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتیں، جسے تبدیل ہونا چاہیے‘۔

مذکورہ رپورٹ میں ان چیلنجز کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ان سے نمٹنے کے لیے تجاویز بھی دی گئیں ہیں مثلاً وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی جانب سے ہراساں کیے جانے والے کیسز کے احتساب کا طریقہ کار تشکیل دینا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوئٹر آن لائن بدکلامی کے خاتمے کیلئے سرگرم

اس کے ساتھ ساتھ اظہارِ خیال کے حلقوں، ڈیجیٹل تحفظ اور کمزور گروپس کی پرائیویسی کے لیے خواتین اور مخنث افراد کی زیادہ نمائندگی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے اکثر آن لائن پلیٹ فارمز کو ریگولرائز کرنے کا کہا جاتا ہے لیکن اس پر ردِ عمل دینے والوں کی 66.7 فیصد تعداد نے اس کو مسترد کیا۔

رپورٹ تیار کرنے والی سماجی کارکن رمشا جہانگیر کا کہنا تھا کہ آن لائن استحصال میں اضافے اور سائبر ہراساں کیے جانے کی شکایات بڑھنے پر حکام کو سماجی روابط کی ویب سائٹس کو اس کا مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اس جانب توجہ دینی چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تحقیق میں حصہ لینے والی خواتین کی جانب سے ایف آئی اے پر عدم اطمینان سے بھی اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے۔


یہ خبر 25 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں