طیبہ تشدد کیس: 'اہل محلہ نے بچی کو ملزمان سے بچایا، وہ سخت سردی میں ٹھٹھرتی رہی'

جسٹس یحیٰ آفریدی کے مطابق طیبہ کی برآمدگی ملزمان کے گھر سے ہوئی حادثاتی زخم آپ خود مان رہے اس کا مطلب کچھ تو کیا تھا؟ — فائل فوٹو/ اے پی
جسٹس یحیٰ آفریدی کے مطابق طیبہ کی برآمدگی ملزمان کے گھر سے ہوئی حادثاتی زخم آپ خود مان رہے اس کا مطلب کچھ تو کیا تھا؟ — فائل فوٹو/ اے پی

اسلام آباد: جسٹس اعجاز الاحسن نے طیبہ تشدد کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ جب بچی پر ظلم ہو رہا تھا تو اہل محلہ نے اسے ملزمان سے بچایا، طیبہ سخت سردی میں کانپتی رہی اور 10 سال کی بچی پر عدالت میں جرح کی گئی۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے طیبہ تشدد کیس میں سابق جج راجہ خرم اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت ملزمان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ طیبہ نے تسلیم کیا کہ اس کے ساتھ بدسلوکی نہیں ہوئی، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ طیبہ کی عمر 10 سال تھی اور عدالت میں اس پر جرح کی گئی، معصوم بچی سے جرح میں کیا اُمید رکھتے ہیں؟

انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ اہل محلہ نے طیبہ کو ملزمان سے بچایا، طیبہ سخت سردی میں ٹھٹھرتی رہی۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان کی سزا معطل کردی

جسٹس اعجاز الاحسن نے ملزمان کے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یقینی طور پر آپ کے بھی بچے ہوں گے کیا آپ کے اچھے اسکولز میں پڑھنے والے بچے جرح کا سامنا کر سکتے ہیں طیبہ تو گاؤں کی ان پڑھ بچی تھی۔

وکیل نے پھر موقف اپنایا کہ طیبہ کے زخم حادثاتی تھے اس نے طوطے کی طرح رٹا ہوا بیان دیا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے طیبہ کی تصاویر دیکھی ہیں؟ کیا ان کو بھی آپ جعلی کہیں گے؟ کیا سارا جہان آپ کا دشمن تھا؟

جس پر وکیل نے جواب دیا کہ تصاویر جعلی نہیں لیکن بڑھا چڑھا کر پیش کی گئیں۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ طیبہ کی برآمدگی ملزمان کے گھر سے ہوئی حادثاتی زخم آپ خود مان رہے اس کا مطلب کچھ تو کیا تھا آپ کے موکل نے؟

کیس کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی، ملزمان کے وکیل نے دلائل مکمل کر لیے جبکہ استغاثہ کل دلائل پیش کریں گے۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ 27 دسمبر 2016 کو اسلام آباد کی گھریلو ملازمہ طیبہ پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر میں تشدد کا واقعہ منظرعام پر آیا تھا۔

پولیس نے 29 دسمبر کو جج راجا خرم اور ان کی اہلیہ کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا اور دونوں افراد کے خلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’کمسن طیبہ کے والدین کا معمہ حل ہوگیا‘

تاہم 3 مارچ 2017 کو طیبہ کے والدین نے راجا خرم اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا تھا، تاہم اس صلح نامے کی خبر نشر ہونے کے بعد چیف جسٹس نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا۔

چیف جسٹس نے رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو حکم دیا تھا کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر معاملے کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔

بعد ازاں 8 جنوری 2017 کو سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے طیبہ کو بازیاب کرا کے عدالت میں پیش کیا تھا، جس کے بعد عدالتی حکم پر 12 جنوری کو جج راجا خرم کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیس کا ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا، جہاں متعدد سماعتوں کے بعد 16 مئی 2017 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات اکثر میڈیا پر رپورٹ نہیں ہوتے تاہم طیبہ تشدد کا واقعہ سامنے آنے کے بعد ملازمین پر تشدد سے متعلق متعدد واقعات نہ صرف میڈیا پر رپورٹ ہوئے بلکہ ان پر ملزمان کو مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

اسی طرح مارچ 2017 میں ملتان میں بھی ایک کم سن گھریلو ملازمہ کو بدترین تشدد کا نشانہ کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے ملازمہ پر 'تشدد' کا از خود نوٹس لے لیا

واضح رہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے گھریلو تشدد کے واقعات کے خلاف تحفظِ نسواں جیسے بل بھی منظور ہوچکے ہیں لیکن عام خیال یہی ہے کہ ان قوانین پر مناسب عملدرآمد نہ ہونے کے باعث آج بھی متعد ملازمین ایسے واقعات کا نشانہ بن رہے ہیں۔

بعد ازاں 17 اپریل 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے کیس کے ملزمان کے خلاف ایک ایک سال قید اور 50، 50 ہزار جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

سزا سنائے جانے کے بعد ملزم راجہ خرم علی خان کی جانب سے سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کے لیے ضمانت طلب کی گئی تھی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے انہیں ایک ہفتے کے اندر اپیل دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں