ججز کے خلاف ریفرنسز: سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس ختم

سب کی نظریں سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت پر ہیں—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سب کی نظریں سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت پر ہیں—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد/کراچی: سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں ملک کی اعلیٰ عدالت کے 2 ججز کے خلاف ریفرنسز پر ہونے والا پہلا اجلاس ختم ہوگیا۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی محمد شیخ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ پر مشتمل سپریم جوڈیشل کونسل کے 5 اراکین سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کریم خان آغا کے خلاف برطانیہ میں مبینہ طور پر جائیدادیں رکھنے سے متعلق ریفرنسز کی سماعت کرنے والوں میں شامل تھے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی ابتدائی کارروائی میں ریفرنسز کے قابل سماعت ہونے کا جائزہ لیا گیا جبکہ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے ریفرنس کے حوالے سے حکومتی مؤقف سے آگاہ کیا۔

وکلا کا احتجاج، ریفرنسز کی کاپیاں نذر آتش

دوسری جانب جہاں ایک طرف سب کی نظریں سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت پر تھیں تو وہیں دوسری طرف ان ریفرنسز کے خلاف اسلام آباد، کراچی، پشاور، کوئٹہ سمیت مختلف شہروں میں وکلا برادری کی جانب سے احتجاج کرتے ہوئے ہڑتال کی گئی۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر امان اللہ کنرانی نے سپریم کورٹ کے باہر ریفرنسز کی کاپیاں جلانے کا اعلان کیا تھا جبکہ وکلا برادری کے ایک حصے کے علاوہ دیگر وکلا نے پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کی کال پر ملک بھر میں ہڑتال کا کہا گیا تھا۔

اپنے اعلان پر سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر ایس سی بی اے کے صدر امان اللہ کنرانی سمیت دیگر وکلا نے ججز کے خلاف ریفرنس کی علامتی نقل کو آگ لگا دی، ساتھ ہی سپریم کورٹ بار کی جانب سے عدالت عظمیٰ کی عمارت کی سیڑھیوں پر احتجاجی دھرنا بھی دیا جبکہ سپریم کورٹ میں مختلف بارز کے احتجاجی بینرز بھی آویزاں کیے گئے، وکلا برادری کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس لیا جائے۔

وکلا نے ریفرنس کی نقل کو آگ لگادی—فوٹو: حسیب بھٹی
وکلا نے ریفرنس کی نقل کو آگ لگادی—فوٹو: حسیب بھٹی

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے کہا کہ ہماری جدوجہد عدلیہ کی آزادی کے لیے ہے، ‏پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا اتحاد سب دیکھ سکتے ہیں، ‏آج پورے پاکستان کے وکلاء نے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔

امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ پاکستان بار کونسل نے ایکشن کمیٹی بنائی ہے، ہم سب اس کے فیصلوں کے پابند ہوں گے۔

ادھر ڈان نیوز ٹی وی کے مطابق پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ کورٹ بار ایسوسی ایشن کی کال پر وکلا نے کراچی سمیت سندھ بھر کی عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج ریکارڈ کروایا۔

اسی طرح کوئٹہ بار کونسل اور ہائی کورٹ بار میں بھی عدالتی کارروائی معطل رہیں، وکلا تنظیموں نے بار رومز کے باہر سیاہ پرچم بھی آویزاں کیے، پشارمیں بھی وکلا عدالتوں میں پیش نہ ہوئے جبکہ کے پی بار کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

سپریم کورٹ میں احتجاجی بینر آویزاں کیے گئے—فوٹو: حسیب بھٹی
سپریم کورٹ میں احتجاجی بینر آویزاں کیے گئے—فوٹو: حسیب بھٹی

ہڑتال کی کال پر وکلا تقسیم

جہاں ایک طرف وکلا برادری کا بڑا حصہ احتجاج کر رہا ہے تو وہیں دوسری طرف پنجاب بارکونسل نے وکلا کی ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

وکلا ایکشن کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ تمام بار ایسوسی ایشن میں روز مرہ کی سرگرمیاں ہوئیں اور وکلاء نے اپنی حاضریاں بھی لگوائیں، نام نہاد لیڈرز نے سیاسی جماعتوں سے فنڈز لے کر عدلیہ کے خلاف تحریک چلانے کی کوشش کی۔

ایکشن کمیٹی کا کہنا تھا کہ بار کے وکلا کو اعتماد میں لیے بغیر ہڑتال کا اعلان کردیا جاتا ہے، اس فیصلے کے بعد صدر سپریم بار کونسل کو صدر رہنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ صدرسپریم کورٹ بار کونسل کے خلاف اس کی اپنی بار نے عدم اعتماد کیا۔

قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ان ریفرنسز پر اٹارنی جنرل انور منصور جنہیں بطور پراسیکیوٹر پیش ہونے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل سے نوٹس موصول ہوا تھا اور وہ اس معاملے میں رسمی سماعت کے آغاز پر کونسل کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے، اگر کونسل ان کے دلائل سے قائل ہوجاتی ہے تو وہ ججز کو نوٹسز جاری کرے گی اور ان سے ان کے خلاف الزامات کے جواب مانگے گی یا پھر کارروائی کو ڈراپ کرنے کا فیصلہ بھی کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کراچی بار ایسوسی ایشن پہلے ہی اٹارنی جنرل انور منصور خان اور وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی رکنیت ختم کرچکی ہے۔

دوسری جانب وکلا کی مختلف باڈیز کی طرح اعلیٰ حکومتی اراکین نے بھی جوڈیشل کونسل کی ابتدائی سماعت کو دور سے دیکھنے اور کسی بھی معاملے میں مداخلت کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے دونوں ججز کی قسمت سے متعلق کیے جانے والے فیصلے کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ادھر ایس سی بی اے کے صدر امان اللہ کنرانی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعتوں کے خلاف سپریم کورٹ کی عمارت کے احاطے میں پرامن احتجاج کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کونسل عدالت عظمیٰ کا ماتحت ادارہ ہے، جس نے 20 جولائی 2007 کو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کے خلاف شروع کیے گئے ریفرنس کو باہر پھینک دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے 13 ججز میں سے 3 کے مقابلے میں 10 ججز کی اکثریت نے ریفرنس کو مذموم مقاصد کے ساتھ دائر کرنے پر غیر قانونی کہا تھا، لہٰذا سپریم جوڈیشل کونسل کو موجودہ ریفرنسز کو سپریم کورٹ کے اکثریت فیصلے کی روشنی میں ڈراپ کرنے کے علاوہ جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ججز کےخلاف ریفرنسز پر احتجاج، پنجاب بار کونسل کا اعلانِ لاتعلقی

تاہم امان اللہ کنرانی کے سیکریٹری عظمت اللہ چوہدری سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی حدود میں کوئی احتجاج نہیں ہونا چاہیے تھا اور وکلا کو سماعتوں میں شامل ہونے کی اجازت دینی چاہیے تھی جبکہ صوبائی بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کو اپنے متعلقہ مقامات پر احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے تھا۔

سابق ایس سی بی اے صدر علی احمد کرد نے سپریم کورٹ کے ماتحت سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک کمزور باڈی قرار دیا جبکہ پاکستان بار کونسل کی جانب سے وزیر قانون کی رکنیت ختم کرنے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اخلاقی طور پر وزیر کے پاس کچھ نہیں بچتا کیونکہ وکلا کی اعلیٰ باڈی نے انہیں باہر نکال پھینکا ہے۔

علاوہ ازیں سینئر وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے بھی پاکستان بار کونسل کی کال پر جمعہ کو عدالتی کارروائیوں میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

نجی ریفرنس دائر

دریں اثنا ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت صدر مملک ڈاکٹر عارف علوی کو لکھے گئے 2 خطوط کو ججز کے ضابطہ اخلاق کی مبینہ خلاف ورزی کہتے ہوئے نجی ریفرنس دائر کردیا۔

اس ریفرنس میں موقف اپنایا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خطوط لکھ کر غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان خطوط کو مبینہ طور پر ذرائع ابلاغ کے ساتھ شیئر کیا گیا، لہٰذا سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر انہیں ہٹانا چاہیے۔

مزید پڑھیں: پاکستان بار کونسل کا ججز کے خلاف ریفرنسز کالعدم قرار دینے کا مطالبہ

ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ ’انہوں نے عوامی فورم کو اپنے ذاتی اور مخصوص خیالات اور رائے کے لیے استعمال کیا، جج نے مجموعی طور پر ملک کی پوری عدلیہ کا وقار مجروح کیا اورملک کے چیف ایگزیکٹو (وزیر اعظم) کو ہدف بنایا اور اس معاملے پر تنقید کے لیے نامناسب زبان کا استعمال کیا‘۔

ادھر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی اس سارے معاملے میں شامل ہوگئے ہیں اور کہا ہے کہ کونسل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو مسترد کرے، ساتھ ہی انہوں نے اسے آئینی شقوں، جھوٹ، غلط اور بغیر ثبوت کے قرار دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں