سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک ناکام، اپوزیشن ٹوٹ پھوٹ کا شکار

اپ ڈیٹ 04 اگست 2019
خواجہ آصف اور شیری رحمٰن ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا معاملہ عوام کے سامنے لے آئے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
خواجہ آصف اور شیری رحمٰن ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا معاملہ عوام کے سامنے لے آئے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں میں پھوٹ پڑ گئی جہاں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایک دوسرے پر وفاداریاں تبدیل کرنے کا الزام عائد کررہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف اور پیپلز پارٹی کی شیری رحمٰن ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا معاملہ عوام کے سامنے لے آئے جہاں دونوں نے اپوزیشن کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا۔

تاہم دونوں جماعتیں اس بات پر متفق دکھائی دیتی ہیں کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ میں ضابطہ اخلاق کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ان کی جماعت پارلیمانی قوانین کی تبدیلی کی خواہشمند ہے جن میں ایوان میں ووٹنگ کے دوران خفیہ رائے شماری شامل ہے۔

مزید پڑھیں: چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تبدیلی کی تحاریک ناکام

انہوں نے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی ان کی اس تجویز کو سراہے گی کیونکہ یہ ان کے بھی منشور میں شامل ہے۔

سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے بعد اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے ایوان میں وفاداریاں تبدیل کرنے اور حقائق جاننے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں قائم اس کمیٹی کا پہلا اجلاس 6 اگست کو اسلام آباد میں ہوگا، جہاں سے خفیہ رائے شماری کے دوران اپنا ووٹ صادق سنجرانی کے حق میں دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

مذکورہ کمیٹی میں تمام صوبوں سے پارٹی رہنماؤں کی نمائندگی ہوگی تاہم اس میں کوئی موجودہ سینیٹر شامل نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: ’آئین اور وفاق سے کھیلا گیا کھیل، جمہوریت کیلئے نیک شگون نہیں‘

ذرائع کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلاف اسی دن پیدا ہوگیا تھا جس دن دونوں جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی۔

اس اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیٹر نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ریئل اسٹیٹ بزنس کی بڑی شخصیت سے مبینہ ملاقات پر وضاحت طلب کی تھی، تاہم پیپلز پارٹی نے ایسی رپورٹس کو مسترد کردیا تھا۔

اسی طرح اپوزیشن کے اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز کی عدم حاضری پر شکایات کے باوجود پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق کے ذریعے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے رابطہ کیا اور ان سے مسلم لیگ (ن) سینیٹرز کی اپوزیشن اجلاس کے دوران حاضری یقینی بنانے کی درخواست کی۔

شیری رحمٰن نے خواجہ آصف کے ریمارکس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس میں مسلم لیگ (ن) رہنما نے پیپلز پارٹی کو سینیٹ میں اپوزیشن کی ناکامی کا ذمہ دار پیپلز پارٹی کو قرار دیا تھا اور اس کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کو ایک ڈرامہ کہا تھا۔

مزید پڑھیں: تحریک عدم اعتماد کی ناکامی: ’شک کی بنیاد پر کسی کو پارٹی سے نہیں نکال سکتے‘

پیپلز پارٹی کی رہنما کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف نے اپوزیشن کے اتحاد کو توڑنے کی کوشش کی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے اس بیان پر وضاحت دینے کا مطالبہ کردیا۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ انہیں بھی اپوزیشن کی دیگر جماعتوں پر تحفظات تھے لیکن انہوں نے متحدہ اپوزیشن کے وسیع تر مفاد میں ان کا اظہار نہیں کیا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین اور گورنر پنجاب چوہدری سرور پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے ان کی پارٹی کے سینیٹرز سے رابطہ کرکے انہیں صادق سنجرانی کے حق میں ووٹ دینے کا کہا۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی کی اپنے سینیٹرز کے کردار کے تعین کیلئے کمیٹی قائم

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے سینیٹرز نے مجھے اس بارے میں بتایا تھا، مجھے اپنے سینیٹرز پر اعتماد ہے اور میں نے ان میں سے کسی کا بھی استعفیٰ منظور نہیں کیا، ان کے خلاف پروپگینڈا کیا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی جس کی قرارداد کی حمایت میں 64 اراکین ایوان میں کھڑے ہوئے، تاہم خفیہ رائے شماری میں صرف 50 ووٹ نکلے۔

ایوان میں مطلوبہ ہدف تک ووٹ حاصل نہ ہونے پر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا گیا جس کے ساتھ ہی چیئرمین سینیٹ اپنے عہدے پر برقرار رہے۔

تبصرے (0) بند ہیں