نئی دہلی: بھارت میں خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے بھارتی فیصلے کے بعد یہاں کی مقامی خواتین سے شادی سے متعلق متنازع تبصروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے۔

ڈان اخبار نے غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ 5 اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے بعد بھارت کے مردوں کی جانب سے کشمیری خواتین سے شادی کرنے سے متعلق نازیبا تبصرے سامنے آنے پر سماجی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کو ’دہشت گردی‘ سے آزاد کردیا، نریندر مودی

خیال رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز تک مقبوضہ کشمیر کے مقامی افراد، جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے، کو مختلف اقسام کے خصوصی حقوق حاصل تھے، ان حقوق میں غیر مقامی افراد کا وادی میں جائیداد نہ خریدنا، غیر مقامی افراد کو سرکاری ملازمتوں کی اجازت نہ ہونا اور غیر مقامی افراد کا یہاں کی خواتین سے شادی نہ کرنا شامل تھا۔

لیکن حال ہی میں بھارتی حکومت کی جانب سے وادی کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کیے جانے کے فیصلے کے بعد بھارت کی دیگر ریاستوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو مقبوضہ کشمیر میں جائیدادیں حاصل کرنے ساتھ دیگر حقوق بھی حاصل ہوگئے ہیں۔

بھارتی حکومت کے حالیہ اقدام کے بعد ملک میں سماجی روابط کی متعدد ویب سائٹس پر ایسی پوسٹس اور ویڈیوز شیئر کی گئی تھیں جن میں کشمیری خواتین سے شادی کی اجازت کو سراہا گیا تھا، جسے خواتین اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں 500 سے زائد حریت رہنما و کارکنان گرفتار

ایک آزاد صحافی اور رضاکار رتوپارنا چاترجی نے اس اقدام کو انتہائی نامناسب قرار دیا، وہ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے جنسی ہراسانی کی کہانیاں منظر عام پر لاتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘صدیوں سے خواتین کا جنسی استحصال کیا جارہا ہے جبکہ کشمیری خواتین سے شادی کے حوالے سے کیے جانے والے تبصرے اس حقیقت کی گواہی ہیں’۔


یہ خبر 9 اگست 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں