لندن: کشمیریوں کے حق میں ہزاروں افراد کا بھارتی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج

اپ ڈیٹ 04 ستمبر 2019
مظاہرین نے احتجاجی بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر نریندر مودی کے خلاف نعرے درج تھے — فوٹو: بشکریہ ٹوئٹر
مظاہرین نے احتجاجی بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر نریندر مودی کے خلاف نعرے درج تھے — فوٹو: بشکریہ ٹوئٹر

لندن میں ایک مرتبہ پھر ہزاروں مظاہرین نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور لاک ڈاؤن کے خلاف بھارتی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ کیا اور احتجاجاً انڈوں اور ٹماٹروں کی بوچھاڑ کردی۔

احتجاج کے دوران متعدد مظاہرین نے ہاتھوں میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے پرچم تھامے ہوئے تھے جبکہ کئی افراد نے پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے جن پر کشمیر کے حق میں نعرے درج تھے۔

واضح رہے کہ بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی جس کے بعد سے تاحال وادی میں کرفیو نافذ اور مواصلات کا نظام معطل ہے۔

لندن کے پارلیمنٹ اسکوائر پر 5 ہزار سے زائد مظاہرین جمع ہوئے اور انہوں نے وادی میں بھارتی فورسز کے ظلم و جبر کے خلاف بھارتی ہائی کمیشن کی طرف مارچ کیا۔

لندن میں کشمیری تنظیموں اور مقامی افراد کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے لیے سماجی کارکنوں اور حامیوں کو لندن میں جمع ہونے کی اپیل کی گئی تھی۔

کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے نکالی گئی ریلی میں مظاہرین نے مہاتما گاندھی کے مجسمے کو کشمیر کا جھنڈا بھی تھما دیا۔

لندن میں ہونے والے اس احتجاج میں کئی مظاہرین برطانیہ کے دیگر شہروں سے خصوصی چارٹرڈ بسوں کے ذریعے آئے تھے۔

مظاہرین نے ہاتھوں میں احتجاجی بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف نعرے درج تھے۔

علاوہ ازیں بعض مظاہرین نے بھارتی ہائی کمیشن کی عمارت پر احتجاجاً انڈے اور ٹماٹر بھی برسائے۔

احتجاج میں کشمیری، پاکستانی، بھارتی، برطانوی اور دیگر قومیتوں کے افراد نے شرکت کی اور قافلوں کی صورت میں بھارتی ہائی کمیشن کی طرف مارچ کیا اور بھارت مخالف نعرے لگائے۔

اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری بھارتی ہائی کمیشن کے اطراف میں موجود تھی تاہم پولیس کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

مظاہرین نے بھارتی ہائی کمیشن پر دھواں چھوڑنے والے گولے بھی پھینکے۔

بعض مظاہرین نے لال روشنائی سے بھرے غبارے بھی بھارتی ہائی کمیشن پر پھینکے تاکہ تاثر دیا جائے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں کا ’خون بہہ‘ رہا ہے۔

اس سے قبل لندن میں ہی 15 اگست کو ہزاروں افراد نے بھارتی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج کیا تھا۔

لندن میں احتجاج کرنے والے مظاہرین نے 'کشمیر جل رہا ہے'، 'فری کشمیر' اور 'مودی: چائے کو جنگ نہیں بناؤ' کے نعروں کے بینرز اٹھا رکھے تھے۔

مذکورہ احتجاج میں تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری نے بھی شرکت کی تھی اور کہا تھا کہ 'میرے خیال سے یہ ریکارڈ توڑ ٹرن آؤٹ ہے اور یہ کشمیر کے لوگوں اور دیگر کے اس عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ آپریشن اور ظلم کے خلاف ہیں'۔

مزید پڑھیں: لندن: سکھوں کا ہندوستانی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج

واضح رہے کہ 28 اگست کو امریکا کے مزید کئی قانون سازوں نے بھارت پر مقبوضہ کشمیر سے فوری طور پر محاصرہ ختم کرنے پر زور دیا تھا جس سے امریکی کانگریس میں کشمیری عوام کے لیے دو طرفہ حمایت ظاہر ہوتی ہے۔

امریکی اراکین کانگریس کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا وہیں امریکی حکومت نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرنے میں جھجک سے کام نہیں لیا اور بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ مواصلاتی رابطوں کو بحال کرے اور لوگوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرتے ہوئے انہیں اکٹھا ہونے اور احتجاج کرنے کی اجازت دے۔

کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ بھارتی حکومت کی پالیسی انتہا پسند آر ایس ایس کی پالیسی جیسی ہے جو خطہ ہمالیہ میں ہندو بالادستی قائم کرنے پر کام کر رہی ہے۔

انہوں نے بین الاقوامی برادری کو خبردار کیا تھا کہ بھارت پلوامہ جیسی جھوٹی کارروائی کرکے پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے، تاہم اگر ایسا ہوا تو اس کے اثرات پوری دنیا محسوس کرے گی۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

آئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھاتے ہوئے 9 لاکھ تک پہنچا دیا تھا۔

بعد ازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی، تاہم اس میں چند مقامات پر جزوی نرمی بھی دیکھنے میں آئی۔

مزید پڑھیں: ’مسئلہ کشمیر پر تمام آپشنز زیر غور ہیں‘

بھارتی حکومت کے اس غیر قانون اقدام کے بعد کشمیریوں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے، جبکہ بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر امریکی میڈیا بھی بول پڑا اور اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھا دیئے۔

سی این این نے اپنی رپورٹ میں سوال اٹھایا کہ ’کیا کشمیر جیسے اس اہم ترین مسئلے پر سلامتی کونسل مزید 50 سال گزرنے کے بعد اپنا کردار ادا کرے گا؟‘

22 اگست کو دنیا میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے وقف عالمی ادارے جینوسائڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر کے لیے انتباہ جاری کیا تھا۔

عالمی ادارے نے کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اقوام متحدہ اور اس کے اراکین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھارت کو خبردار کریں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی نہ کرے۔

خیال رہے کہ بھارتی کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سفارتی سطح پر پاکستان بھی بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں