مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارتی فیصلے پر تنقید، سری نگر کے میئر نظربند

اپ ڈیٹ 04 ستمبر 2019
سری نگر کے میئر نے انٹرویو کے دوران بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بات کی تھی — فائل فوٹو: ٹوئٹر
سری نگر کے میئر نے انٹرویو کے دوران بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بات کی تھی — فائل فوٹو: ٹوئٹر

مقبوضہ کشمیر کے سب سے بڑے شہر سری نگر کے میئر جنید عظیم مٹو کو نئی دہلی حکومت کے 5 اگست کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنانے پر نظربند کردیا گیا۔

بھارتی نیوز ویب سائٹ دی کوئنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق سری نگر کے میئر نے نئی دہلی کے آرٹیکل 370 کے خاتمے سے متعلق فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مختلف لوگ اپنے اہل خانہ سے رابطہ نہیں کر پارہے۔

اس بارے میں این ڈی ٹی وی نے لکھا کہ جنید عظیم مٹو کو دہلی سے واپس آنے کے بعد نظر بند کیا گیا، وہ بھارتی دارالحکومت میں علاج کے لیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ گرفتار

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے فیصلے کے بعد سے میئر کی نقل و حرکت کو محدود کردیا گیا تھا۔

نظربند ہونے سے قبل سری نگر کے میئر نے این ڈی ٹی وی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 'کشمیر کی گلیوں میں ہوسکتا ہے کوئی لاشیں نہ ہوں' اور یہ سمجھنا 'انتہائی غیر حقیقت پسندانہ' ہوگا کہ یہ معمول پر آگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'جذبات پر مشتمل ایک بنیاد پرست فیصلے کے ذریعے پابندیاں نافذ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ صورتحال معمول پر ہے، ایسا لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی نظربندی پالیسی مکمل طور پر آپریشنل ہے'۔

سری نگر کے میئر کا کہنا تھا کہ 'ایسے بہت سے خاندان ہیں جو اپنے پیاروں سے رابطہ کرنے سے قاصر ہیں'۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے ایک بحران پیدا ہوا ہے جس نے اس (خطے کی) شناخت کی بنیاد رکھ دی۔

دوران انٹرویو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ تشدد کے انتہائی واضح خطرے کے ساتھ زندگی گزاری ہے یہ کوئی نیا منظرنامہ نہیں لیکن اس کا استعمال بنیادی حقوق کے خاتمے کے جواز کے لیے کرنا کشمیر میں بیگانگی کی اصل وجہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'بھارت، محبوبہ مفتی کو گرفتار کرکے ان کا حوصلہ توڑنا چاہتا ہے'

خیال رہے کہ 5 اگست کو بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے قبل ہی وادی میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کردی تھی جبکہ ہزاروں اضافی فوجی بھی وہاں بھیج دیے تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو بھی نظربند کردیا گیا تھا۔

تاہم اس خصوصی حیثیت کے خاتمے کے چند گھنٹوں بعد ہی عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی سمیت جموں اینڈ کشمیر پیپلز کانفرس کی قیادت سجاد لون اور عمران انصاری کو بھی گرفتار کرلیا تھا۔

بھارت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں لگائے گئے اس لاک ڈاؤن کو 31 روز ہوچکے ہیں، جس کے باعث وہاں لوگ محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں