'5 اگست کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں 722 احتجاجی مظاہرے ہوئے'

اپ ڈیٹ 16 ستمبر 2019
ھارتی حکومت کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 20 احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں—تصویر: رائٹرز
ھارتی حکومت کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 20 احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں—تصویر: رائٹرز

سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 6 ہفتوں سےکرفیو اور لاک ڈاؤن کے باجود بھارتی حکومت کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 20 احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔

سینئر حکومتی ذرائع کے مطابق گزشتہ ماہ نئی دہلی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی دہائیوں پرانی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے پر متنازع ہمالیائی خطے میں اب بھی سخت کشیدگی ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن نقل و حرکت پر پابندی، انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز کی بندش کے باوجود بھارتی حکومت کے خلاف مسلسل عوامی مظاہرے ہورہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے 3 نوجوان شہید

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ مظاہرے کشمیر کے سب سے بڑے شہر سری نگر میں ہوئے جس کے بعد ضلع بارامولا اور پلوامہ احتجاجی مظاہروں کا مرکز بنا رہا، حکام کے مطابق 5 اگست سے لے کر اب تک 722 مظاہرے ہوچکے ہیں۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت سے اب تک تقریباً 200 شہری اور 415 سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوچکے، جس میں سے 95 شہری گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران زخمی ہوئے۔

تاہم یہ بات غیر واضح ہے کہ رہائی پانے والوں میں کوئی سیاستدان بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں افراد کو 'پتھراؤ کے الزام' میں گرفتار کیا گیا

اس ضمن میں بھارتی حکام کا اصرار ہے کہ جھڑپوں کے واقعات انتہائی کم ہیں اور کرفیو کے آغاز سے اب تک صرف 5 شہری جاں بحق ہوئے، جن میں سے 4 افراد کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی موت کی ذمہ دارسیکیورٹی فورسز ہیں۔

اس سلسلے میں پولیس نے بیان دیا کہ 3 افراد کو عسکریت پسند تنظیموں سے تعلق کے شبے میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ اسلحہ منتقل کررہے تھے۔

خیال رہے کہ بھارت نے 5 اگست کے فیصلے کے تناظر میں مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوج تعینات کردی تھی جہاں پہلے ہی 5 لاکھ بھارتی فوجی اہلکار موجود تھے۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی نظام بحال کرنے کا مطالبہ

بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

یہی نہیں بلکہ بھارت نے 5 اگست کے اقدام سے کچھ گھنٹوں قبل ہی مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو لگا دیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی منقطع کردیے تھے جو ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال معطل ہیں۔

ادھر برطانوی خبررساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارتی حکومت نے 6 ستمبر کو اعداد و شمار جاری کیے تھے جن کے مطابق 3 ہزار800 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا تاہم اس میں 2 ہزار 600 افراد رہا کردیے گئے۔

مزید پڑھیں: بھارت: سپریم کورٹ نے بیٹی کو محبوبہ مفتی سے ملاقات کی اجازت دے دی

خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے 2 سابق وزرائے اعلیٰ سمیت 200 سیاستدان گرفتار ہیں، جس میں 100 سے زائد سیاستدانوں کا تعلق بھارت مخالف جماعتوں سے ہے۔

اس حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ یہ کریک ڈاؤن مقبوضہ وادی کی حالیہ تاریخ کی ’واضح اور بے مثال‘ کارروائی ہے اور ان گرفتاریوں سے بڑے پیمانے پر خوف ہراس پھیلا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں