ایل این جی کیس: شاہد خاقان عباسی کی جیل میں لیپ ٹاپ فراہم کرنے کی درخواست

اپ ڈیٹ 20 اکتوبر 2019
چیئرمین نیب نے جسمانی ریمانڈ کے دوران لیپ ٹاپ استعمال کرنے کی اجازت دی ہوئی تھی — فائل فوٹو: سی این این
چیئرمین نیب نے جسمانی ریمانڈ کے دوران لیپ ٹاپ استعمال کرنے کی اجازت دی ہوئی تھی — فائل فوٹو: سی این این

اسلام آباد: احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے اڈیالہ جیل میں لیپ ٹاپ استعمال کرنے کی درخواست پر جیل انتظامیہ سے رائے طلب کرلی۔

احتساب عدالت کی جانب سے یہ رائے سابق وزیراعظم اور مائع قدرتی گیس (ایل این جی) ٹرمینل کیس کے دیگر ملزمان کی ملاقات کے حوالے سے دائر اپیل میں طلب کی گئی جنہیں اتوار کو ملاقات کی اجازت دے دی گئی۔

خیال رہے کہ شاہد خاقان عباسی اور شیخ عمران الحق پر مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں قواعد و ضوبط کے خلاف ایل این جی ٹرمینل کا 15 سالہ ٹھیکہ دینے کا الزام ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شاہد خاقان عباسی کا جیل میں بہتر سہولیات کیلئے عدالت سے رجوع

عدالتی حکم نامے کے مطابق ملزمان پہلے سے مقررہ دن پر اپنے وکلا اور اہلِ خانہ کے ساتھ بھی ملاقات کرسکتے ہیں۔

سماعت میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان پرزن رولز 1978 میں اس قسم کی کوئی شق موجود نہ ہونے کے سبب لیپ ٹاپ کی اجازت نہیں‘۔

جس پر شاہد خاقان عباسی کی ہمشیرہ اور ان کے کیس کی پیروی کرنے والے وکیل سعدیہ عباسی نے موقف اختیار کیا کہ سابق وزیراعظم کو اپنا کیس تیار کرنے اور اپنے وکلا کے لیے نوٹس تحریر کرنے کے لیپ ٹاپ درکار ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (ن) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے جسمانی ریمانڈ کے دوران لیپ ٹاپ استعمال کرنے کی اجازت دی ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: ایل این جی کیس: شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمٰعیل عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل

سعدیہ عباسی نے احتساب عدالت کے جج سے درخواست کی کہ 'چونکہ شاہد خاقان عباسی عدالت کے حکم پر جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں لہٰذا انہیں بغیر کسی انٹرنیٹ کنیکشن کے صرف ایک سافٹ ویئر کے ساتھ لیپ ٹاپ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنے وکلا کے لیے دستاویز تیار کرسکیں'۔

جس پر عدالت نے اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو جواب جمع کروانے کا نوٹس بھیج دیا تا کہ یہ بتایا جائے کہ کس صورت میں ملزم کو لیپ ٹاپ کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

ایل این جی کیس

واضح رہے کہ شاہد خاقان عباسی کو 18 جولائی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں گرفتار کیا تھا، اس کے علاوہ 7 اگست کو ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد ہونے پر مفتاح اسمٰعیل کو عدالت سے گرفتار کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر الزام ہے کہ انہوں نے اس وقت قوائد کے خلاف ایل این جی ٹرمینل کے لیے 15 سال کا ٹھیکہ دیا، یہ ٹھیکہ اس وقت دیا گیا تھا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں شاہد خاقان عباسی وزیر پیٹرولیم تھے۔

نیب کی جانب سے اس کیس کو 2016 میں بند کردیا گیا تھا لیکن بعد ازاں 2018 میں اسے دوبارہ کھولا گیا۔

یاد رہے کہ نیب انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کی انتظامیہ نے غیر شفاف طریقے سے ایم/ایس اینگرو کو کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل کا کامیاب بولی دہندہ قرار دیا تھا۔

اس کے ساتھ ایس ایس جی سی ایل نے اینگرو کی ایک ذیلی کمپنی کو روزانہ کی مقررہ قیمت پر ایل این جی کی ریگیسفائینگ کے 15 ٹھیکے تفویض کیے تھے۔

نہ صرف شاہد خاقان عباسی بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر بھی اپنی مرضی کی 15 مختلف کمپنیوں کو ایل این جی ٹرمینل کا ٹھیکا دے کر اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف نیب تحقیقات اگلے مرحلے میں داخل

2016 میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں نیب کراچی میں منعقدہ ریجنل بورڈ کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری بند کردی گئی تھی۔

رواں برس 2 جنوری کو ای بی ایم نے اس وقت شاہد خاقان عباسی کے خلاف 2 انکوائریز کی منظوری دی تھی، جب وہ سابق وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے۔

ان انکوائریز میں سے ایک ایل این جی کی درآمدات میں بے ضابطگیوں میں ان کی مبینہ شمولیت جبکہ دوسری نعیم الدین خان کو بینک آف پنجاب کا صدر مقرر کرنے سے متعلق تھی۔

تاہم شاہد خاقان عباسی کا موقف ہے کہ انہوں نے ایل این کی درآمد کے لیے دیے گئے ٹھیکے میں کوئی بے ضابطگی نہیں کی اور وہ ہر فورم پر اپنی بے گناہی ثابت کرسکتے ہیں اور یہ کہ 2013 میں ایل این جی کی برآمدات وقت کی اہم ضرورت تھی۔

مزید پڑھیں: ایل این جی کے ’غیر شفاف‘ ٹھیکوں پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ

اس سلسلے میں رواں برس مارچ میں سابق وزیر اعظم ایل این جی کیس میں نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے، جس کے بعد احتساب کے ادارے نے ان پر سفری پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔

جس کے بعد اپریل میں حکومت نے 36 ارب 69 کروڑ 90 لاکھ روپے مالیت کے ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سمیت 5 افراد کے بیرونِ ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔

بعدازاں سابق وزیراعظم جون میں بھی تفتیش کے لیے نیب میں پیش ہوئے تھے تاہم نیب نے شاہد خاقان عباسی کو ان کے خلاف جاری تفتیش کے پیشِ نظر ایک مرتبہ پھر بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔

دوسری جانب شاہد خاقان عباسی نے نیب کی جانب سے مزید ریکارڈ طلب کیے جانے پر مہلت طلب کی تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ متعلقہ ریکارڈ ان کے پاس نہیں بلکہ وزارت پیٹرولیم کے پاس ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں