حکومت سے مذاکرات پر پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے مولانا فضل الرحمٰن متحرک

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2019
جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رہبر کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رہبر کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حکومتی ارکان پر مشتمل کمیٹی سے مذاکرات کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے جس پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن متحرک ہوگئے اور حکومتی کمیٹی سے مذاکرات منسوخ کردیے۔

یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے 27 اکتوبر کو حکومت کے خلاف اسلام آباد میں لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا تاہم 27 اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کے خلاف حکومت کی جانب سے یوم سیاہ منائے جانے کے پیش نظر انہوں نے تاریخ کو تبدیل کرتے ہوئے 31 اکتوبر کو لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کا معاملہ سامنے آنے کے بعد پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمٰن سے نالاں ہوگئی۔

مزید پڑھیں: جے یو آئی (ف) نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے، عبدالغفور حیدری

پی پی پی کے اہم عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ پیپلز پارٹی نے مولانا فضل الرحمٰن کے حکومت سے مذاکرات کے فیصلے کو سولو فلائیٹ قرار دیا جبکہ پی پی پی قیادت کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کا حکومت کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ یکطرفہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومتی کی مذاکراتی کمیٹی سے بات چیت پر پی پی پی کو اعتماد میں نہیں لیا اور ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ جے یو آئی (ف) کا فیصلہ اپوزیشن کے مشترکہ اعلامیے کی خلاف ورزی ہے۔

پی پی پی کے تحفظات دور کرنے کیلئے مولانا فضل الرحمٰن متحرک

پی پی پی کی جانب سے تحفظات اور ناراضگی کا اظہار کیے جانے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، پیپلز پارٹی کو منانے کے لیے متحرک ہوگئے۔

پارٹی ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل نیر بخاری سے رابطہ کیا، اس موقع پر نیر بخاری نے تمام تحفظات سے متعلق مولانا فضل الرحمٰن کو آگاھ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'حکومتی مذاکرات کی پیشکش بغل میں چھری، منہ پر رام رام کے مترادف ہے'

بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن نے نیر بخاری کو مذاکرات کے معاملے پر اعتماد میں لیا، جس پر نیر بخاری نے مولانا فضل الرحمٰن کا موقف پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا۔

ذرائع کے مطابق نیر بخاری نے مولانا فضل الرحمٰن کو بتایا کہ وہ پارٹی قیادت کو آگاھ کرنے کے بعد جواب دیں گے۔

مسلم لیگ (ن) کا بھی پیپلز پارٹی سے رابطہ

پیپلز پارٹی نے مولانا فضل الرحمٰن کے بعد مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے بھی تحفظات کا اظہار کردیا جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے بھی پیپلز پارٹی سے رابطہ کیا۔

بعد ازاں حکومتی کمیٹی اور جے یو آئی (ف) کے درمیان آج ہونے والے مذاکرات منسوخ کرنے سے متعلق اعلان بھی سامنے آیا۔

ذرائع کے مطابق حکومت کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ راہبر کمیٹی کرے گی اور اس حوالے سے راہبر کمیٹی کا اجلاس 22 اکتوبر کو اسلام آباد میں طلب کرلیا گیا۔

مزید پڑھیں: وزارت داخلہ کا جے یو آئی (ف) کی فورس 'انصار الاسلام' کےخلاف کارروائی کا فیصلہ

علاوہ ازیں مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن رہنماؤں سے مشاورت کے بعد مذاکرات کا اختیار راہبر کمیٹی کے سپرد کردیا۔

واضح رہے کہ مولانا عبدالغفور حیدری کی سربراہی میں کمیٹی نے آج ذاتی حیثیت میں حکومتی کمیٹی سے ملاقات کرنا تھی لیکن یہ ملاقات اب نہیں ہو گی۔

مولانا فضل الرحمٰن کا لانگ مارچ

یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے 27 اکتوبر کو حکومت کے خلاف اسلام آباد میں لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا تاہم 27 اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے یوم سیاہ منائے جانے کے پیش نظر انہوں نے تاریخ کو تبدیل کرتے ہوئے 31 اکتوبر کو لانگ مارچ کا اعلان کیا۔

16 اکتوبر کو جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے کہا تھا کہ استعفے سے پہلے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران آزادی مارچ کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ‘مذاکرات سے پہلے استعفیٰ ضروری ہوگا تاکہ استعفے کے بعد کی صورت حال پر مذاکرات کیے جاسکیں’۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا استعفیٰ ناممکن، فضل الرحمٰن چڑھائی کرنا چاہتے ہیں، مذاکراتی ٹیم

مولانا فضل الرحمٰن نے یہ بھی کہا تھا کہ 'آزادی مارچ' اب 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوگا جبکہ 27 اکتوبر کو کشمیریوں کے ساتھ 'یوم سیاہ' منائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 27 اکتوبر کو ملک بھر میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے یوم سیاہ منائیں گے، اس روز ریلیاں نکالی جائیں گی، یوم سیاہ کے بعد کارکان اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کریں گے۔

18 اکتوبر کو اپوزیشن جماعتوں بالخصوص جمعیت علمائے اسلام (ف) سے مذاکرات کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر حکومت کی 7 رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی تھی۔

کمیٹی کے حوالے سے اعلان کیا گیا تھا کہ وزیر دفاع اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما پرویز خٹک کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کی کمیٹی اپوزیشن سے بات چیت کرے گی۔

کمیٹی کے دیگر اراکین میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، وفاقی وزرا شفقت محمود اور نورالحق قادری، اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ اور رکن قومی اسمبلی اسد عمر شامل ہیں۔

گزشتہ روز وزیر دفاع اور اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ناممکن سی بات ہے، اس کا مطلب ہے یہ (مولانا فضل الرحمٰن) چڑھائی کرنا چاہتے ہیں۔

جس پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جنرل سیکریٹری عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے حکومتی ٹیم سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔

علاوہ ازیں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے حکومت کے خلاف 'آزادی مارچ' کی حمایت کرتے ہوئے اس میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا تھا۔

اس سے قبل حکومتی اداروں اور اعلیٰ عہدوں پر موجود علما و مشائخ سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے ’ آزادی مارچ ‘ سے پریشان نہیں اور جے یو آئی (ف) ایک ہفتے کے لیے بھی دھرنا جاری رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

تبصرے (0) بند ہیں