مولانا فضل الرحمٰن گرفتار ہوکر 'ہیرو' بننا چاہتے ہیں، سینیٹر شبلی فراز

اپ ڈیٹ 21 اکتوبر 2019
سینیٹ کے قائد ایوان نے مولانا فضل الرحمٰن سے متعلق بات کی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
سینیٹ کے قائد ایوان نے مولانا فضل الرحمٰن سے متعلق بات کی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن گرفتار ہوکر ہیرو بننا چاہتے ہیں لیکن حکومت ان کو گرفتار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اپوزیشن سے مذاکرات کی منسوخی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت ایک پیج پر نہیں ہے، بظاہر تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک پیج پر ہیں لیکن گزشتہ روز کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک پیج پر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں اگر مذاکرات کرنے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ اس کی کوئی سنجیدگی ہو اور اس میں شامل تمام اسے سنجیدگی سے لیں کیونکہ یہ ملک کی، ملک کی معیشت، ملک کی تصویر اور امن و امان کی بات ہے، لہٰذا اسے مذاق نہیں لینا چاہیے۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے جس طریقے کے بیان مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے آرہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ کسی شہر پر چڑھائی کرنے والے ہیں، تاہم یہ اچھی بات نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت سے مذاکرات پر پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے مولانا فضل الرحمٰن متحرک

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا ناکام ہوگا، لہٰذا انہیں اپنے بیانات پر سوچنا چاہیے کیونکہ یہ ان کی سیاسی ساکھ کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہوگا اور وہ شاید اس چیز پر غور نہیں کر رہے۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کامیاب نہیں ہوئے تو تقریباً ان کی سیاست ختم ہوجائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس ہمیشہ وہی آپشن ہوتے ہیں جو آئین و قانون میں دیے گئے ہیں اور ہم اسی پر عمل پیرا ہوں گے اور کوئی بھی چیز ماورائے آئین و قانون نہیں کریں گے، تاہم حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کو نظربند کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش نہیں ہے کہ ہم انہیں گرفتار کریں، ہم بلاوجہ انہیں اتنی اہمیت نہیں دینا چاہتے، ان کا پروگرام ابھی کافی کشمکش کا شکار ہے، لہٰذا یہ آپشن ابھی زیر غور نہیں۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی کوشش ہے کہ انہیں گرفتار کیا جائے لیکن ہم انہیں اتنی اہمیت نہیں دینا چاہتے، وہ چاہتے ہیں کہ گرفتار ہوں اور ہیرو بن جائیں، لیکن ایسا نہیں ہونے والا۔

مظاہرین کو ڈی چوک تک آنے کی اجازت ہونے سے متعلق شبلی فراز نے کہا کہ یہ فیصلہ انتظامیہ نے کرنا ہے، یہاں مختلف مظاہرے ہوتے ہیں جس کی حدود ہوتی ہے کیونکہ یہ وفاقی دارالحکومت ہے اور مختلف ممالک کے سفرا بھی یہاں ہوتے ہیں، لہٰذا سب چیزوں کو مدنظر رکھ کر کام کرنا ہوگا۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر جے یو آئی (ف) سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔

18 اکتوبر کو وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر تشکیل دی گئی اس 7 رکنی مذاکراتی کمیٹی کے دیگر اراکین میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، وفاقی وزرا شفقت محمود اور نورالحق قادری، اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ اور رکن قومی اسمبلی اسد عمر شامل ہیں۔

بعد ازاں اس مذاکراتی کمیٹی کے رکن چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے رابطہ کرنے پر جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے اپنی جماعت کے سیکریٹری جنرل سینیٹر عبدالغفور حیدری کو ان سے ملاقات کی اجازت دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جے یو آئی (ف) نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے، عبدالغفور حیدری

تاہم اتوار کو مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی پارٹی کے وفد کو صادق سنجرانی سے ملاقات سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم سے ملاقات کا فیصلہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کرے گی۔

واضح رہے کہ اس رہبر کمیٹی میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں شامل ہیں اور ان کا اہم اجلاس آج (21 اکتوبر کو) اسلام آباد میں ہوگا، جہاں کمیٹی کے کنوینر اور جے یو آئی (ف) کے رہنما اکرم درانی فیصلہ کریں گے کہ آیا وزیراعظم کی مذاکراتی ٹیم سے ملاقات کرنی ہے یا نہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کا لانگ مارچ

یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے 27 اکتوبر کو حکومت کے خلاف اسلام آباد میں لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا تاہم 27 اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے یوم سیاہ منائے جانے کے پیش نظر انہوں نے تاریخ کو تبدیل کرتے ہوئے 31 اکتوبر کو لانگ مارچ کا اعلان کیا۔

16 اکتوبر کو جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے کہا تھا کہ استعفے سے پہلے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران آزادی مارچ کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ‘مذاکرات سے پہلے استعفیٰ ضروری ہوگا تاکہ استعفے کے بعد کی صورت حال پر مذاکرات کیے جاسکیں’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے یہ بھی کہا تھا کہ 'آزادی مارچ' اب 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوگا جبکہ 27 اکتوبر کو کشمیریوں کے ساتھ 'یوم سیاہ' منائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 27 اکتوبر کو ملک بھر میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے یوم سیاہ منائیں گے، اس روز ریلیاں نکالی جائیں گی، یوم سیاہ کے بعد کارکان اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں