آزادی مارچ: 2 دن کی مہلت ہے وزیراعظم استعفیٰ دے دیں، مولانا فضل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کو دو دن کی مہلت دی—فوٹو:اے ایف پی
مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کو دو دن کی مہلت دی—فوٹو:اے ایف پی
مولانا فضل الرحمٰن اپنی رہائش گاہ سیکٹر جی سکس فور اسلام آباد میں موجود ہیں— فوٹو: فیس بک
مولانا فضل الرحمٰن اپنی رہائش گاہ سیکٹر جی سکس فور اسلام آباد میں موجود ہیں— فوٹو: فیس بک

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت مخالف ’آزادی مارچ‘ کے جلسے سے خطاب میں حکومت کو دو دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر حکومت کرنے کا حق عوام کا ہے کسی ادارے کو پاکستان پر مسلط ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن سے قبل آزادی مارچ کے شرکا سے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے خطاب کیا اور حکومت پر کڑی تنقید کی۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ 'پاکستان پر حکومت کرنے کا حق عوام کا ہے کسی ادارے کا پاکستان پر مسلط ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں'۔

مولانا فضل الرحمٰن کارکنوں کے نعروں کا جواب دیتے ہوئے—فوٹو: فیس بک
مولانا فضل الرحمٰن کارکنوں کے نعروں کا جواب دیتے ہوئے—فوٹو: فیس بک

انہوں نے کہا کہ 'آپ ملک کے کونے کونے سے طویل سفر کی مشقت برداشت کرتے ہوئے یہاں پہنچ چکے ہیں، آپ جس ولولے اور جس عزم کے ساتھ آئے ہیں میں اس کو سلام پیش کرتا ہوں'۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'میرے محترم دوستوں میں اس وقت ہمارے اجتماع میں تمام سیاسی قائدین موجود ہیں میں ان کو خوش آمدید بھی کہتا ہوں اور ان تمام سیاسی جماعتوں کا باہمی یک جہتی کا فیصلہ درحقیقت ایک قومی یک جہتی کا اظہار ہے جس نے ہمارے مطالبے کو کسی ایک جماعت یا ایک تنظیم کا مطالبہ نہیں بلکہ اس سے یک قومی مطالبے کا روپ ڈھال دیا ہے'۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ 'آج کا یہ اجتماع سنجیدہ اجتماع ہے اور پوری دنیا اس کو سنجیدگی سے لے، جب ہم فیصلہ کررہے ہیں کہ ہم اس ملک میں ایک انصاف کی اور عدل پر مبنی ایک نظام چاہتے ہیں جو عوام کی مرضی سے ہو تو پھر ظاہر ہے کہ عوام کا حق ہے کہ اس کے لیے ایک اجتماع کی صورت میں وحدت کا مظاہرہ کرے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ربیع الاول کا مہینہ ہے رحمت کا مہینہ ہے اس کی نسبت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد کی طرف ہے جس کی بنیاد پر اس مہینے کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس اجتماع کا آغاز کررہے ہیں تو اللہ کی رحمت بھی برس رہی ہے، کتنا مبارک اجتماع ہے کتنے مبارک وقت میں ہورہا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ربیع الاول کا مہینہ، ناموس رسالت اور ختم نبوت کے عقیدے کا دفاع یہ سب مبارک اجتماع ہے جس نے پورے قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہوا ہے’۔

'25 جولائی 2018 کے الیکشن فراڈ تھے'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘ہم سب لوگوں کا مطالبہ ایک ہی ہے کہ 25 جولائی 2018 کو پاکستان میں جو الیکشن ہوئے تھے وہ فراڈ الیکشن تھے، وہ بدترین دھاندلی کا شکار ہوئے، ہم نہ ان نتائج کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی ان نتائج کی بنیاد پر بننے والی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں’۔

انتخابات کو فراڈ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ایک ہی فیصلہ کرنا ہے کہ اس حکومت کو جانا ہے، بڑی مہلت دے دی، ایک سال کی مہلت بڑی مہلت ہے اور ہم اس حکومت کومزید مہلت دینے کے روادار نہیں ہیں، یہ قوم آزادی چاہتی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ان کی ناہلی کے نتیجے میں ملک کی معیشت تباہ ہوگئی ہے، جس ریاست کی معیشت بیٹھ جائے وہ ریاست اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی، اگر سوویت یونین اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکا تو پاکستان بھی ان نااہلوں کے نتیجے میں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا’۔

وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘یہ پاکستان کا گورباچوف اب اس کو اپنی ناکامی کا اعتراف کرکے ریاست کی حاکمیت سے دستبردار ہونا چاہیے’۔

کارکنوں کی بڑی تعداد آزادی مارچ میں شریک ہے—فوٹو:: اے پی
کارکنوں کی بڑی تعداد آزادی مارچ میں شریک ہے—فوٹو:: اے پی

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘انہوں نے کشمیر کو بیچا ہے، کہتے ہیں ہم کشمیر کی بات کررہے ہیں اور ہمیں کہا گیا کہ آپ ان دنوں میں آزادی مارچ نہ کریں، ایل او سی پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بڑی ٹینشن ہے، سرحد کے حالات بڑے پیچیدہ ہیں، اس موقع پر آپ یہ جلسہ نہ کریں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ کشمیر کی سرحد پر تو بڑی ٹینشن اور تناؤہے جس کی بنیاد پر ہمیں جلسہ نہیں کرنا چاہیے لیکن کرتار پور راہداری کھولنے کے لیے ہندوستان سے دوستی کی پینگیں بڑھائی جارہی ہیں، یہ کیسا ٹینشن ہے ایک طرف کہتے ہیں ٹینشن ہے اور دوسری طرف دوسرا دروازہ کھولنے کے لیے آپ ہندوستان سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں’۔

کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘آج کشمیریوں کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، آج کشمیریوں کو موجودہ پاکستانی حکمرانوں نے مودی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘آج پاکستانی قوم اور تمام سیاسی جماعتوں کا اجتماع ایک آواز کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ حکومت کی پرواہ کیے بغیر عوام کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، عوام کشمیریوں کی جنگ آزادی، حق خود ارادیت کی جنگ، ان کی آئندہ مستقبل کی جنگ لڑیں گے اور کشمیری اپنے آپ کو کبھی بھی تنہا محسوس نہیں کریں گے’۔

'مہنگائی نے گھر کرلیا ہے'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘ملک کی معیشت تباہ ہوگئی ہے، مہنگائی نے گھر کرلیا ہے، غریب آدمی صبح شام کے لیے راشن خریدنے کے قابل نہیں رہا، غریب مائیں اپنے روزگار کے لیے اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہوگئی ہیں، نوجوان خودکشیوں پر آگئے ہیں، رکشے والا رکشے کو آگ لگا رہا ہے، چھوٹا دکاندار کاروبار کو برباد دیکھ رہا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘عام آدمی آج جس کرب میں مبتلا ہے، کیا ہم قوم کو ہمیشہ کے لیے ان نااہل حکمرانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیں، ان لوگوں کو اپنی ہی قوم کے غریبوں، کسانوں، مزدوروں، نوجوانوں اور بے روزگاروں کے ساتھ مزید کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی’۔

شرکا نے نماز جمعہ جلسے کے لیے مختص گراؤنڈ میں ادا کی—فوٹو:ڈان نیوز
شرکا نے نماز جمعہ جلسے کے لیے مختص گراؤنڈ میں ادا کی—فوٹو:ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان کے وعدوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘انہوں نے کہا تھا ہم 50 لاکھ گھر بنا کر دیں گے، 50 لاکھ گھربنانا تو دور کی بات یہ تو 50 لاکھ سے زائد گھر گرا چکے ہیں اور لوگوں کو بے گھر کردیا گیا ہے، نوجوانوں سے کہا گیا تھا کہ ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گے جبکہ ایک سال کے اندر 20 سے 25 لاکھ نوجوان بے روزگار ہوگئے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان اتنا خوش حال ہوگا کہ لوگ نوکریوں کے لیے باہر سے آئیں گے اور باہر سے صرف دو لوگ آئے ہیں، اسٹیٹ بینک کا گورنر اور ایف بی آر کا چیئرمین نوکریوں کے لیے باہر سے آئے ہیں اور وہ بھی آئی ایم ایف نے بھیجے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘جب پاکستان کی معیشت پر اس طرح کے سانپ بٹھائے جائیں گے جو مغربی معیشت کو خوش حال بنائیں اور پاکستان کی معیشت کو ان کی گروی بنائیں گے تو ہم غلام معیشت کو تسلیم نہیں کرتے’۔

معیشت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘جب پاکستان کی بنیاد بنی تھی تو اسٹیٹ بینک کا افتتاحی جلسہ ہورہا تھا تو قائد اعظم نے کہا تھا کہ مغربی معیشت نے سوائے جنگوں، فسادات اور تباہیوں کے کچھ نہیں دیا ہے، ہمیں چاہیے کہ قرآن و سنت کے مطابق پاکستان میں معاشی نظام چاہیں گے’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘آج قائد اعظم کی روح تم سے پوچھ رہی ہے کہ کہاں ہے وہ معیشت کہ جس کے تصور پر میں نے پاکستان بنایا تھا اور آج تم نے میرے پاکستان کو غلام بنادیا ہے’۔

قائد اعظم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘1940 میں قرار داد پاس ہورہی تھی اس میں قائد اعظم نے صرف پاکستان کا تصور پیش نہیں کیا تھا بلکہ کہا تھا کہ فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیاں ناجائز ہیں اور ہم بھی فلسطینیوں کے شانہ بشانہ ان کے حقوق کی جنگ لڑیں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ قائد اعظم کی فلسطینیوں سے کمٹمنٹ تھی اور جب 1948 میں اسرائیلی ریاست وجود میں آئی تواس کے وزیراعظم نے اسرائیل کی پہلی خارجہ پالیسی کے اصول میں کہا کہ ایک نوزائیدہ پاکستان کا خاتمہ ہمارا بنیادی اصول ہوگا’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘پھر پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، یہ کون سا قائد اعظم کا پاکستان تشکیل دے رہے ہیں، تم نے کیوں پاکستان کے تصورات کو تبدیل کیا ہے، قوم پوچھنا چاہتی ہے کہ ان حقائق کو عوام کے سامنے کیوں نہیں لارہے کہ تم نے پاکستان کی بنیاد کن باتوں پر رکھی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘عوامی سیلاب اعلان کررہا ہے کہ کوئی مائی کا لعل مستقبل میں پاکستان کی سرزمین پر ناموس رسالت کو نہیں چھیڑ سکے گا، یہ عظیم الشان اجتماع اس بات کا اعلان کررہا ہے کہ مستقبل میں کوئی پاکستان کے آئین کے عقیدہ ختم نبوت کو نہیں چھیڑ سکے گا’۔

'مذہبی کارڈ'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘کہتے ہیں یہ مذہبی کارڈ استعمال کررہے ہیں، مذہبی کارڈ اگر آئین کا مسئلہ ہے اور آئین اس کا ذکر اور تحفظ کرتا ہے، میں آئین کی بات کرتا ہوں تو تم کون ہوتے ہومجھے پاکستانی آئین کے تحت تحفظ دیے ہوئے اسلامی دفعات کو تحفظ دینے کے لیے بات کرنے سے روکنے والے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں کہتا ہوں کہ پاکستان اور مذہب اسلام کو جدا نہیں کیا جاسکتا، اسلام ہے تو پاکستان ہے اور پاکستان ہے تو اسلام ہے’۔

سربراہ جے یوآئی (ف) نے کہا کہ ‘کہا جاتا ہے کہ نواز شریف اور زرداری کرپٹ ہیں اور ہم تو چوروں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، ورلڈ اکنامک کی چند روز پہلے کی رپورٹ پڑھ لیں جس میں کہا گیا ہے کہ کرپشن میں خاتمے کی تو دور کی بات ایک سال کے اندر کرپشن میں دو سے تین فیصد اضافہ ہوا ہے’۔

'میڈیا سے پابندی اٹھالیں'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘آج پاکستان کے میڈیا پر پابندی ہے کہ دنیا کو پاکستان کے عوام کے ان جذبات سے آگاہ کر سکے، میں میڈیا کے ساتھ کھڑا ہوں اوراپیل کرتا ہوں میڈیا مالکان، اینکرز اور میڈیا پرسنز سے کہ وہ کھل کر آزادی مارچ کا حصہ بنیں اور حکومت کے ان فیصلوں کے خلاف بغاوت کریں’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘میڈیا سے پابندی اٹھالیں ورنہ ہم بھی کسی پابندی کے پابند نہیں ہوں گے’۔

'عوام کا فیصلہ آچکا حکومت کو جانا ہی جانا ہے'

انہوں نے کہا کہ ‘یہ ہماری پرامن صلاحیتوں کا اظہار ہے، ہم پرامن لوگ ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ امن کے دائرے میں رہیں ورنہ اسلام آباد کے اندر پاکستان کے عوام کا یہ سمندر اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ وزیراعظم کے گھر کے اندر جاکر وزیراعظم کو خود گرفتار کرلیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘عوام کا فیصلہ آچکا ہے اب اس حکومت کو جانا ہی جانا ہے لیکن میں اداروں کے ساتھ بات کرنا چاہتا ہوں، ہماری نپی تلی پالیسی ہے کہ ہم اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے ہم پاکستان کے اداروں کا استحکام چاہتے ہیں، ہم اداروں کو طاقت ور دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم اداروں کو غیر جانب دار بھی دیکھنا چاہتے ہیں’۔

شہباز شریف نے شرکا سے خطاب کیا—اسکرین شاٹ
شہباز شریف نے شرکا سے خطاب کیا—اسکرین شاٹ

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘اگر ہم محسوس کریں کہ اس ناجائز حکومت کی پشت پر ہمارے ادارے ہیں، اگر ہم محسوس کریں کہ اگر ان ناجائز حکمرانوں کا تحفظ ہمارے ادارے کر رہے ہیں تو پھر دو دن کی مہلت ہے پھر ہمیں نہ روکا جائے کہ ہم اداروں کے بارے میں اپنی کیا رائے قائم کرتے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج میرا استاد سڑکوں پر گھسیٹا جارہا ہے، معماران قوم کواسلام آباد کی سڑکوں پر گھسیٹا جارہا ہے، خواتین استانیوں کو چہروں پر تھپڑ مارے جارہے ہیں، سڑکوں اور تھانوں میں ان کی تذلیل کی جارہی ہے، جو قوم کو علم کی زینت سے سنوارتے ہیں آج اسی کی سزا پاکستان میں پارہے ہیں'۔

عوامی احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'آج پشاور کا وہ ڈاکٹر جو لوگوں کے زخم سیتا ہے اس کی مرہم پٹی کرتا ہے خود ڈاکٹروں کے زخم سے خون رس رہا ہے اور سڑک کو رنگین کررہا ہے، ہسپتالوں میں پڑا ہے جہاں لوگ ان سے علاج لینے جاتے ہیں وہاں وہ خود زیر علاج ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ ‘کیا یہ ملک اس لیے بنا تھا کہ ہمارا ڈاکٹر اور ہمارا استاد بھی غیر محفوظ ہو، آج وکیل بھی رورہا ہے وہ بھی میدانوں میں ہے، آج میڈیا کا کارکن بھی رو رہا ہے، کون سا طبقہ ہے جو اس وقت کرب میں مبتلا نہیں’۔

'دو دن کی مہلت ہے استعفیٰ دے دیں'

مولانا فضل الرحمٰن نےحکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس کرب سے اگر قوم کو نکالنا ہے کہ تو دو دن کی مہلت ہے آپ کے پاس اور آپ استعفیٰ دے دیں ورنہ پھر اگلے دن ہم نے اس سے آگے فیصلے کرنے ہیں، کسی کے ساتھ کوئی کمٹمنٹ نہیں ہے، ہم جس امن کے ساتھ آئے ہیں ہمارے اس امن کا احترام کیا جائے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘قوم کے امن کا احترام کیا جائے، سیاسی جماعتوں کے امن کا احترام کیا جائے، ہم مزید صبر وتحمل کا مظاہرہ نہیں کر سکیں گے’۔

اس موقع پر عوام کے نعروں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘میں نے سن لیا ہے کہ آپ ڈی چوک کی بات کررہے ہیں، صرف میں نے نہیں سنا بلکہ بلاول بھٹو نے بھی سن لیا، محمود اچکزئی نے بھی سن لیا ہے، احسن اقبال اور خواجہ آصف نے بھی سن لیا ہے اوراویس نورانی بھی سن رہا ہے’۔

‘آپ ڈی چوک کی بات کررہے ہیں ہم سب نے نوٹ کرلیا ہے، نواز شریف اور آصف زرداری نے بھی یہ بات سن لی ہے اور ہم جن کو سنانا چاہتے ہیں وہ بھی سن لیں’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘میں تین دن کی بات اس لیے کررہا ہوں کہ تین دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غار میں پناہ لی تھی، تین دن کی مہلت سنت کی بھی نسبت ہے’۔

اپنے خطاب کے آخر میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا شکریہ ادا کیا اور جیلوں میں موجود سیاسی قیادت کی صحت یابی کے لیے دعا کی۔

مولانا فضل الرحمٰن نے عوام سے پوچھا کہ ‘کیا آپ استعفے مانگتے ہو یا نہیں، استعفے سے کم پر راضی ہو کہ نہیں اگر استعفے سے کم پر راضی ہوتو مجھے بتادیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اساتذہ کے مطالبات ہوں، تاجروں یا ڈاکٹروں کے مطالبات ہوں، حکومت اپنے فیصلے واپس لے اور ہمارے ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے سب کے مطالبات کو تسلیم کیا جائے’۔

انہوں نے گزشتہ روز رحیم یار خان میں پیش آنے والے ریل حادثے کے متاثرین کے لیے بھی دعا کی اور مطالبہ کیا کہ اس حادثے کی اعلیٰ سطح کی اور عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے کہ یہ حادثہ ہے یا دہشت گردی ہے، ریلوے سے پوچھا جائے کہ کیا کمزوری ہے اور ایسی کوتاہی کیوں کی۔

اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ‘میرے دوستو! آپ اس میدان میں استقامت کے ساتھ اس میدان میں جمے رہیں اور دو دن کے اندر ان سے استعفیٰ لینا ہے اور اگر نہیں دیا توہم نے مل کر ایک فیصلہ کرنا ہے، اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے ہم نہیں کرنا، آپ عوام ہیں، ووٹ آپ کی امانت ہے، ووٹ آپ کی ملکیت ہے، آپ کی امانت پر ڈاکا ڈالا گیا ہے لہٰذا اپنے ووٹ کے بارے میں فیصلے آپ کو کرنے ہیں’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘ہم تمام سیاسی رہنماؤں سے رابطے میں ہیں، رہبر کمیٹی بھی موجود ہے، لمحہ بہ لمحہ صورت حال پر ہماری نظر ہے، مشاورت سے تجاویز طے کی جائیں گی اور آپ کے سامنے پیش کی جائیں گی’۔

یاد رہے کہ آزادی مارچ کا آغاز 27 مارچ کو کراچی سے ہوا تھا جو سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا لاہور اور پھر گوجر خان پہنچا تھا اور گزشتہ روز راولپنڈی سے ہوتا ہوا اسلام آباد میں داخل ہوا تھا۔

آزادی مارچ کے شرکا اسلام آباد کے ایچ- 9 میٹرو گراؤنڈ میں موجود ہیں، نمازِ جمعہ کے بعد جلسے کا باقاعدہ آغاز ہوا جبکہ جلسے سے قبل شرکا نے اپنے لیے کھانا بھی تیار کیا۔

—فوٹو: اے ایف پی
—فوٹو: اے ایف پی

مزید پڑھیں: آزادی مارچ: جے یو آئی (ف) کا قافلہ اسلام آباد میں داخل

قبل ازیں نماز جمعہ سے قبل ذرائع سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ جمیعت علمائے اسلا م (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن دیگر جماعتوں کے قائدین جلسہ گاہ میں موجود نہیں ہیں۔

تاہم بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن جلسہ گاہ پہنچ گئے اور کارکنوں نے ان کا جوش خروش سے استقبال کیا جبکہ انہوں نے بھی کارکنوں کو ہاتھ ہلاکر جواب دیا۔

جادو ٹونے سے حکومت چلائی جارہی ہے، شہباز شریف

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بھی جے یو آئی (ف) کے آزادی مارچ میں شرکت کے لیے پہنچے۔

اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن نے ان کا استقبال کیا اور اپوزیشن کے دونوں رہنماؤں نے شرکا کے نعروں کا جواب ہاتھ ہلاکر دیا۔

بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے کہا کہ آزادی مارچ تحریک کا پہلا حصہ ہے، اس کو آگے بڑھانا ہے، پہلے جو آئی تھی وہ تبدیلی نہیں تھی بلکہ تبدیلی اب آئی ہے اور یہ تحریک انصاف کی حکومت کو بہا کر لے جائے گی۔

فضل الرحمٰن اور شہباز شریف نے کارکنوں کے نعروں کا جواب دیا—اسکرین شاٹ
فضل الرحمٰن اور شہباز شریف نے کارکنوں کے نعروں کا جواب دیا—اسکرین شاٹ

انہوں نے کہا کہ ’کیا وہ قیادت بہتر نہیں تھی، جب نواز شریف کی حکومت میں ڈینگی کا خاتمہ کیا گیا؟‘، ساتھ ہی شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ایک سال میں 50 ہزار لوگ ڈینگی وائرس سے بیمار ہوئے اور وزیراعظم عمران خان کہیں نظر نہیں آئے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ ہم جب ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو ہر مسلمان جذباتی ہوجاتا ہے، ہماری حکومت میں کینسر کے مریضوں کے لیے مفت دوائیاں دی جاتی تھیں، آج ادویات تک میسر نہیں ہیں، کیا ریاست مدینہ میں اس طرح کا کوئی عمل ہوسکتا تھا؟

موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا آج طلبا و طالبات سے وظیفے چھین لیے گئے، مزدور بے روزگار ہیں، دکاندار کی دکان بند ہوگئی، سرمایہ کار کا سرمایہ ختم ہوگیا، یتیم اور بیوائیں حکومت کو بدعائیں دے رہے ہیں۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سوا سال میں 22کروڑ عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں لیکن آج دن آگیا ہے کہ عمران خان کی چیخیں نکلنی چاہیے، وقت آگیا ہے کہ ’ہمیں اس جعلی حکومت سے جان چھڑانی چاہیے اور جب تک ہم عمران نیاز سے جان نہیں چھوٹتی تب تک ہم ان جان نہیں چھوڑیں گے۔

اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ 'عمران خان کا دماغ خالی ہے، بھیجہ نہیں ہے اور یہ جادو ٹونے سے حکومت چلا رہے ہیں، جادو ٹونے اور پھونکیں مار کر تعیناتیاں ہورہی ہیں، مجھے خطرہ یہ ہے کہ یہ جو جادو ٹونے سے تبدیلی لانا چاہتے تھے وہ پاکستان کی سب سے بڑی بربادی بن گئی ہے، میں نے 72 برس میں پاکستان کی اتنی بدتر صورتحال نہیں دیکھی'۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے آزادی مارچ کے شرکا کو گواہ بناکر کہا کہ اگر موقع ملے ہم 6 ماہ معیشت ٹھیک کردیں گے ورنہ میرا نام ’عمران خان نیازی‘ رکھ دینا۔

انہوں نے وزیراعظم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اداروں نے جتنی حمایت عمران خان کو دی اگر 10 فیصد ہمیں مل جاتی تو متحدہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر حکومت کرلیتے۔

شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی معشیت دم توڑ گئی ہے، وزیراعظم عمران خان کے لیے ایک کروڑ نوکریاں دینا تو دور کی بات ہے، لاکھوں مزدوں کو بے روزگار کردیا، لوگوں کی چھت چھین لی گئی اور ڈاکٹرز اور نرسیں سراپا احتجاج ہیں۔

قبل ازیں اسلام آباد پہنچنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے آزادی مارچ سے متعلق پارٹی رہنماوں کا مشاورتی اجلاس طلب کیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کا مشاورتی اجلاس منسٹر انکلیو میں منعقد ہوا تھا جس میں احسن اقبال، خواجہ آصف، رانا تنویر، سردار ایاز صادق، مریم اورنگزیب سمیت دیگر نے شرکت کی تھی۔

ذرائع بتایا تھا کہ اجلاس میں آزادی مارچ جلسہ میں شرکت کے حوالے سے مشاورت کی گئی تھی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مختلف علاقوں سے پہنچنے والے قافلوں بارے بھی غور کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں اجلاس میں گزشتہ روز جلسہ کے موخر بارے متضاد بیانات پر شہباز شریف کا مولانا فضل الرحمن کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ گیا تھا۔

ساتھ ہی شہباز شریف نے شہباز شریف نے جلسے میں تقریر کے مندرجات پر بھی پارٹی رہنماوں سے مشاورت کی تھی۔

بلاول بھٹو کا خطاب

ادھر پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مولانا نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کرکے پیغام دیا ہے کہ اس ملک کے عوام صرف جمہوریت مانگتے ہیں، وہ پارلیمانی نظام جو 1973 کے آئین میں پاس کیا تھا۔

بلاول بھٹو زرداری بھی آزادی مارچ میں شریک ہوئے—اسکرین شاٹ
بلاول بھٹو زرداری بھی آزادی مارچ میں شریک ہوئے—اسکرین شاٹ

انہوں نے کہا کہ عوام یہ سلیکٹڈ اور کٹھ پتلی نظام کو نہیں مانتے، میں پوچھنا چاہوں گا کہ اس نیا پاکستان میں یہ کس قسم کی جمہوریت اور آزادی ہے کہ 70 سال گزرنے کے باوجود ہم صاف و شفاف انتخابات نہیں کرواسکتے، یہ کس قسم کی جمہوریت ہے کہ 2018 کے انتخابات میں ہمارے پولنگ ایجنٹس کو باہر پھینک دیا جاتا ہے، پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر فوج تعینات کرا دی جاتی ہے، وہ ادارہ جس کا کام سیکیورٹی کا تھا اس سے پولنگ لسٹ چیک کروائی جاتی ہے، ایسی حرکتوں سے ہمارے انتخابات اور ادارے متنازع ہوجاتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا ضیا الحق اور پرویز مشرف کے دور میں بھی انتخابات ہوئے تھے اور دھاندلی ہوئی تھی لیکن تب بھی پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر فوج نہیں تھی اور نہ ہی 2008 اور 2013 کے انتخابات میں جب دہشت گردی عروج پر تھی تب بھی فوج کو الیکشن میں اسٹیشن کے اندر اور باہر تعینات نہیں کیا گیا تھا لیکن 2018 کے انتخابات میں عمران خان کے لیے یہ سب کیوں کیا جاتا ہے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ 'یہ کسی سیاسی جماعت یا عمران خان کی فوج نہیں ہے، یہ میری اور آپ کی فوج ہے، ہم اسے غیرمتنازع اور غیرسایسی رکھیں گے اور الیکشن میں انہیں متنازع نہیں بننے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کس قسم کہ آزادی ہے کہ نہ عوام آزاد، نہ سیاست آزاد اور نہ ہی صحافت آزاد، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ نہ صرف ہماری حکومت بلکہ ہمارا میڈیا بھی سلیکٹڈ ہے، یہ کیسی آزادی ہے کہ میڈیا پر را ایجنٹ کلبھوشن یادیو اور بھارت کے پائلٹ کا انٹرویو اور دہشت گردوں کا انٹرویو تو چل سکتا ہے مگر اس ملک کے سابق صدر آصف زرداری کا انٹرویو، مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس نہیں چل سکتی، یہ کس قسم کی آزادی ہے، ہم ایسے نئے پاکستان کو نہیں مانتے۔

پی پی پی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ یہ عوام دشمن اور سلیکٹڈ حکومت عوام پر بوجھ ڈالتی ہے اور وہ اس لیے کہ وہ عوام کے ووٹوں کی وجہ سے عوام کے طاقت کی وجہ سے حکومت نہیں کر رہی بلکہ وہ سازشوں اور کسی اور کے اشاروں، سلیکٹرز کی وجہ سے اقتدار میں آئے ہیں تو پھر وہ عوام کو کیوں خوش رکھیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ عوام پر بوجھ ڈال کر سلیکٹر کو خوش کرتے رہیں گے، ایک سال میں معاشی قتل کردیا گیا، عمران خان 2 نہیں ایک پاکستان کا وعدہ کرتے تھے، ان کی معاشی پالیسی یہ ہے کہ عوام کو تکلیف پہنچاتے اور امیروں کو ریلیف پہنچاتے ہیں۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ امیروں کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ہوتی ہے لیکن عوام اور غریب کے لیے ایسی کوئی اسکیم نہیں ہوتی، کوئی بیل آؤٹ نہیں ہوتا اور وہ صرف اس لیے ہے کیونکہ ' ہمارا وزیراعظم سلیکٹڈ ہے، نالائق ہے'۔

عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس 'کٹھ پتلی وزیراعظم کے دور میں کشمیر پر تاریخی حملہ ہورہا ہے لیکن ہمارے وزیراعظم کشمیر پر نہ انسانی حقوق کونسل میں کوئی قرارداد نہیں لاتے یہ بس صرف ٹوئٹس اور تقریریں کرتے ہیں لیکن عوام کو پتہ ہے کہ سلیکٹڈ وزیراعظم نے کشمیر پر سودا کرلیا ہے، تاہم پاکستان کے عوام کو کشمیر پر سودا منظور نہیں ہے وہ آخری دم تک کشمیریوں کے لیے لڑتے رہیں گے'۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب ہر سیاسی جماعت، مظلوموں، تاجروں، کسانوں کا یہ نعرہ ہے کہ 'گو سلیکٹڈ گو'، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ میں 'مولانا فضل الرحمٰن اور متحد اپوزیشن کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہر جمہوری قدم میں ہم ساتھ ہوں گے اور ہم اس کٹھ پتلی، سلیکٹڈ وزیراعظم کو گھر بھیجیں گے'

عمران خان اور ان کی کابینہ مالکان کو جوابدہ ہیں، نیئر بخاری

ادھر پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے شرکت کے اعلان کے بعد سینئر رہنما نیئر بخاری اور فرحت اللہ بابر سمیت دیگر اراکین نے آزادی مارچ میں شرکت کی اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما نیئر بخاری نے کہا کہ ’باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم نے ضیا الحق اور پرویز مشرف کا مقابلہ کیا اور اب متحدہ اپوزیشن کے ذریعے موجودہ حکومت کا مقابلہ کررہے ہیں'۔

انہوں نے حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’تم اور تمہاری کابینہ یومیہ اجرت والے ہیں جو مالکان کو جوابدہ ہیں‘، شوکت عزیز نے بھی مالکان کے کہنے پر حکمرانی کی اور ملک چھوڑ کر چلے گئے، ان کا کوئی مفاد اس ملک میں نہیں تھا اور عمران خان بھی ملک سے بھاگ جائیں گے۔

ساتھ ہی نیئر بخاری نے کہا کہ 1973 کا آئین سیاسی جماعتوں نے دیا، آج پارلیمنٹ کی حیثیت گر چکی ہے، ’آرڈیننس فیکٹری‘ سے 10 آرڈیننس جاری کردیے گے ہیں۔

ازادی مارچ کے شرکا نے سڑک پر نماز جمعہ ادا کی—فوٹو: اے ایف پی
ازادی مارچ کے شرکا نے سڑک پر نماز جمعہ ادا کی—فوٹو: اے ایف پی

پیپلزپارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’ہم اس ملک میں اسلامی جمہوری پارلیمانی نظام چاہتے ہیں‘ اور ’اس ملک کے عوام عمران خان کا احتساب لیں گے‘۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس میں یونیورسٹی بناؤ یا نہ بناؤ، بنی گالہ کو یونیورسٹی ضرور بنائیں گے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر حکومت گھبرائی ہوئی نہیں ہے تو ٹی وی پر آزادی مارچ کی کوریج پر کیوں پابندی ہے۔

قبل ازیں پاکستان پیپلزپارٹی کے میڈیا سیل نے بتایا تھا کہ ان کی جماعت بھی آج آزادی مارچ میں شرکت کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: جے یو آئی (ف) کا آزادی مارچ لاہور سے راولپنڈی کی طرف رواں دواں

اس حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل نیر بخاری آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کریں گے۔

مفتی کفایت اللہ مارچ میں شرکت کیلئے روانہ

اس سے قبل جمیعت علمائے اسلام (ف) کے رہا ہونے والے رہنما مفتی کفایت اللہ بھی اس آزادی مارچ میں شرکت کے لیے روانہ ہوگئے تھے۔

اس بارے میں ان کے بھائی حبیب اللہ نے تصدیق کی تھی کہ مفتی کفایت اللہ کو ہری پور سینٹرل جیل سے رہا کردیا گیا۔

مولانا کو فائیو اسٹار جیسی سہولیات فراہم کی گئی ہیں، فردوس عاشق

جہاں ایک طرف اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی وہی وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو فائیو اسٹار جیسی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

—فوٹو: اے ایف پی
—فوٹو: اے ایف پی

فردوس عاشق اعوان نے نے کہا تھا کہ اگر حکومت ان سے خوفزدہ ہوتی تو انہیں سہولیات فراہم کرتی، پاکستانیوں کو سننا چاہیے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا ایجنڈا اور ان کی خواہش کیا ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز مارچ کے استقبال کے لیے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مختلف مقامات پر استقبالیہ کیمپ لگائے گئے تھے جہاں مقامی رہنماؤں اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔

اس سے قبل مولانا فضل الرحمٰن نے روات میں استقبالیہ کیمپ سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ 'آپ کی یکجہتی قومی نعرے کا روپ دھار چکی ہے، عوام اسلام آباد جا کر حکمرانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ نااہل اور ناجائز حکومت قابل قبول نہیں'۔

جے یو آئی (ف) کا ’آزادی مارچ‘

واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے 25 اگست کو اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا ارادہ رکھتی ہے، جس کا مقصد اکتوبر میں 'جعلی حکومت' کو گھر بھیجنا ہے۔

ابتدائی طور پر اس احتجاج، جسے 'آزادی مارچ' کا نام دیا گیا تھا، اس کی تاریخ 27 اکتوبر رکھی گئی تھی لیکن بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔

مذکورہ احتجاج کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن نے کراچی سے آزادی مارچ کا آغاز کردیا

تاہم 11 ستمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد میں دھرنے میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اخلاقی اور سیاسی طور پر ان کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔

دوسری جانب دھرنے میں شرکت کے حوالے سے مرکزی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور صدر شہباز شریف کے درمیان بھی اختلافات کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

بعدازاں 18 اکتوبر کو مسلم لیگ (ن) نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کے حکومت کے خلاف 'آزادی مارچ' کی حمایت کرتے ہوئے اس میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا تھا۔

ادھر حکومت نے اسی روز اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔

تاہم مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے کہا تھا کہ استعفے سے پہلے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے لیکن ان کی جماعت کے رہنما نے کہا تھا کہ جماعت نے حکومتی ٹیم سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔

جے یو آئی (ف) کی جانب سے حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کی اطلاعات سامنے آنے پر پیپلز پارٹی کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس ضمن میں ایک پی پی پی عہدیدار نے بتایا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی مذاکراتی کمیٹی سے بات چیت پر پی پی پی کو اعتماد میں نہیں لیا اور ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ جے یو آئی (ف) کا فیصلہ اپوزیشن کے مشترکہ اعلامیے کی خلاف ورزی ہے۔

پی پی پی کی جانب سے تحفظات اور ناراضی کا اظہار کیے جانے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، پیپلز پارٹی کو منانے کے لیے متحرک ہوگئے تھے اور حکومتی کمیٹی سے مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔

بعدازاں وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 'آزادی مارچ' منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

حکومت کی جانب سے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں بنائی گئی مذاکراتی ٹیم نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی اور اپوزیشن کے آزادی مارچ پر تبادلہ خیال کیا تھا جس کے بعد مارچ کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں