کیا آپ یقین کریں گے کہ امریکا میں لوگ ہر سال 25 کروڑ ڈالرز ایک ایسے عام مسئلے سے نجات پانے کے لیے ادویات پر خرچ کردیتے ہیں جو پاکستان میں بھی کافی عام ہے اور وہ ہے قبض۔

پاکستان میں اس حوالے سے کوئی باضابطہ اعدادوشمار تو موجود نہیں مگر لاتعداد افراد قبض جیسے تکلیف دہ اور جھنجھلا دینے والے عارضے کا شکار ہوتے ہیں۔

حیران کن طور پر اکثر افراد میں اس مرض کی وجہ مناسب مقدار میں فائبر والی غذاﺅں سے گریز یا پانی کی کم مقدار پینا ہوتی ہے۔

اور پھلوں اور سبزیوں کے جوس میں پانی کے ساتھ ساتھ غذائی اجزا اور کچھ مقدار میں فائبر جسم کو ملتا ہے۔

جسم میں پانی کی مناسب مقدار قبض سے نجات میں مدد دے سکتا ہے مگر کچھ مخصوص جوسز اس حوالے سے زیادہ بہتر انتخاب ثابت ہوتے ہیں، جن کے بارے میں آپ نیچے جان سکتے ہیں۔

آلوبخارے یا خشک آلوبخارے کا جوس

آلوبخارے یا خشک آلوبخارے جسم پر جلاب کش اثرات مرتب کرتے ہیں، ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ روزانہ 100 گرام خشک آلوبخارے کھانے سے قبض سے نجات پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس پھل میں غذائی فائبر کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے مگر جوس کی شکل میں بیشتر مقدار ختم ہوجاتی ہے۔

مگر یہ جوس جلاب جیسا اثر کرتا ہے کیونکہ اس میں میگنیشم، پوٹاشیم اور سوربیتول موجود ہوتے ہیں جو آنتوں کے افعال کو بہتر بناتے ہیں۔

لیموں کا جوس

لیموں وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں جو ایک ایسا اینٹی آکسائیڈنٹ ہے جو معدے میں پانی کی مقدار کو بڑھا کر فضلے کو نرم کرکے آنتوں کی حرکات کو متحرک کرتا ہے۔ جسم میں پانی کی کمی سے قبض ہوتا ہے اور پانی کا استعمال بڑھانے سے اس سے نجات میں مدد مل سکتی ہے۔

لیموں کے عرق اور پانی کو ملا کر پینا بھی کچھ افراد کو قبض سے نجات میں مدد دیتا ہے، اسی طرح لیموں کے عرق کو کھانے میں شامل کرکے بھی یہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

سیب کا جوس

سیب کھانے کی عادت بھی قبض سے نجات میں مدد دے سکتی ہے کیونکہ اس میں فائبر اور سوربیتول موجود ہوتے ہیں۔

سیب میں پیسٹن نامی جز بھی ہوتا ہے جو حل پذیر فائبر ہوتا ہے جو آنتوں کے افعال کو حرکت میں لاتا ہے، سیب کے جوس میں قدرتی مٹھاس کی مقدار دیگر پھلوں کے مقابلے میں زیادہ ہوسکتی ہے تو اس کی زیادہ مقدار سے حساس معدے والے افراد کو مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

تاہم مناسب مقدار میں اس کو پینا قبض سے نجات میں مدد دے سکتا ہے مگر اس کا اثر دیگر جوسز کے مقابلے میں زیادہ موثر نہیں ہوتا۔

نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں