مسلمانوں کو خیرات میں زمین دینے کی ضرورت نہیں، اسد الدین اویسی

اپ ڈیٹ 09 نومبر 2019
اویس الدین اویسی کا کہنا تھا کہ عدالتوں کا احترام کرتے ہیں مگر سپریم کورٹ سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں — فائل فوٹو/این ڈی ٹی وی
اویس الدین اویسی کا کہنا تھا کہ عدالتوں کا احترام کرتے ہیں مگر سپریم کورٹ سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں — فائل فوٹو/این ڈی ٹی وی

بھارتی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اور لوک سبھا کے حیدرآباد دکن سے منتخب رکن اسد الدین اویسی کا کہنا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے میں مسلمانوں کو بابری مسجد کے بدلے اتر پردیش میں 5 ایکڑ کی خیرات دیے جانے کی ضرورت نہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'آج کے فیصلے میں حقائق پر مذہب کی جیت ہوئی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں مگر سپریم کورٹ سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'بھارت کو ہندو ریاست بننے سے بچانا ہے اور یہ بھارت کے لوگوں کو طے کرنا ہے'۔

اسدالدین اویسی کا کہنا تھا کہ 'ہم اس فیصلے سے متفق نہیں، اگر مسجد کو شہید نہیں کیا جاتا تو کیا فیصلہ آتا، اگر 1949 میں بتوں کو نہ رکھا جاتا تو کیا فیصلہ ہوتا'۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد کی زمین پر رام مندر تعمیر کیا جائے گا، بھارتی سپریم کورٹ

انہوں نے صحافیوں کے سوالات پر متعدد مرتبہ دہرایا کہ 'سپریم کورٹ عظیم ادارہ ہے مگر اس سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم سپریم کورٹ کے فیصلے سے خوش نہیں جنہوں نے بابری مسجد کو شہید کیا تھا سپریم کورٹ نے ان ہی کو فنڈز قائم کرنے اور مندر کی تعمیر کرنے کا حکم سنایا ہے'۔

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو زمین خیرات میں نہیں چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ملک کے مسلمان اپنے قانونی حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، انہیں خیرات کی ضرورت نہیں، ہم مسجد خود بنا سکتے ہیں، اگر میں حیدرآباد کی سڑکوں پر بھیک مانگوں تو اتنا جمع کرسکتا ہوں کہ اتر پردیش میں ایک مسجد قائم کرسکوں'۔

فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'سپریم کورٹ کی جانب سے مسجد کے لیے 5 ایکڑ زمین دیے جانے کی پیشکش اور نظر ثانی درخواست کرنے کے حوالے سے بورڈ فیصلہ کرے گا'۔

بابری مسجد کیس

واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا آج (9 نومبر کو) فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کی تعمیر، شہادت اور عدالتی فیصلے تک کیا کچھ ہوا

چیف جسٹس بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ ’ایودھیا میں متنازع زمین پر مندر قائم کیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے نمایاں مقام پر 5 ایکڑ زمین فراہم کی جائے‘۔

یاد رہے کہ 6 دسمبر 1992 میں مشتعل ہندو گروہ نے ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد بدترین فسادات نے جنم لیا اور 2 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان فسادات کو تقسیم ہند کے بعد ہونے والے سب سے بڑے فسادت کہا گیا تھا۔

جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اس کے بعد سے اس مقام کا کنٹرول وفاقی حکومت اور بعدازاں سپریم کورٹ نے سنبھال لیا تھا۔

بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔

ایودھیا کے اس مقام پر کیا تعمیر ہونا چاہیے، اس حوالے مسلمان اور ہندو دونوں قوموں کے افراد نے 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ اپنی اپنی درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کروا رکھی تھیں جس نے اس معاملے پر 8 مارچ کو ثالثی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

اس تنازع کے باعث بھارت کی مسلمان اقلیت اور ہندو اکثریت کے مابین کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں