نوازشریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت

اپ ڈیٹ 19 نومبر 2019
وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم وزہر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم وزہر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا۔

کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے اسلام آباد میں معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف کو صرف ایک بار کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف کو 7 ارب روپے کے سیکیورٹی بانڈ جمع کرانا ہوں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج وفاقی حکومت کسی بھی وقت اجازت نامہ جاری کردے گی، باقی ان کی مرضی'۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی کا معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ 'وزارت داخلہ کے پاس ایک درخواست موصول ہوئی تھی جس کے ساتھ نواز شریف کی صحت کے بارے میں شریف میڈیکل سٹی کی تفصیلی رپورٹ بھی موجود تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'موصول رپورٹ پر پنجاب حکومت کے تشکیل کردہ میڈیکل بورڈ نے کراس چیک کرنے کے بعد اتفاق کیا اور مزید تفصیلات طلب کیں'۔

انہوں نے کہا کہ '11 نومبر کو وزارت داخلہ کے پاس تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی تھی اور اس ہی دن نوٹس جاری کیا گیا، 12 تاریخ کو کابینہ کو بریفنگ دی اور انہیں ساری تفصیلات سے آگاہ کیا'۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ 'کابینہ کمیٹی کو نواز شریف کے صحت کے معاملے پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف کے پلیٹلیٹس کی تعداد 25 سے 30 ہزار ہیں اور انہیں ایک بار اسٹروک بھی آچکا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں بھی نہیں معلوم تھا کہ صورتحال اتنی سنگین ہے جس کے بعد کابینہ نے فیصلہ کیا کہ بانڈ جمع کرانے پر انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جائے'۔

انہوں نے کہا کہ '2010 کے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے قوانین اور 1981 کے آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی سزا یافتہ شخص کو ای سی ایل سے اس وقت تک نہیں ہٹا سکتے جب تک اس کی کوئی ضمانت نہ حاصل ہو'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'تاہم ایک مرتبہ اجازت دیا جانا ای سی ایل سے نام ہٹایا جانا نہیں ہوتا اور وقت کے ساتھ ساتھ متعدد لوگوں کو اجازت دی جاچکی ہیں اور کمیٹی کو حج اور دیگر مواقع پر ایسی درخواستیں موصول ہوتی رہتی ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف نے بیرونِ ملک سفر کیلئے حکومتی شرائط مسترد کردیں

انہوں نے کہا کہ 'نواز شریف کی طبیعت اگر ٹھیک نہ ہو تو قیام میں توسیع کی درخواست دی جاسکتی ہے'۔

بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ 'حکومت کے پاس سیکیورٹی بانڈ مانگنے کا اختیار نہیں، ضمانت عدالت دیتی ہے تاہم 1981 کے قانون کے سیکشن 3 کے مطابق جب بھی ای سی ایل میں کسی کو ڈالا جائے تو حکومت کے پاس اس کا اختیار ہوتا ہے اور شہباز شریف کی درخواست میں بھی یہی کہا گیا تھا'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس سے قبل 2007 میں سزا یافتہ رؤف قادری کو بھی ایک بار باہر جانے کی اجازت دی گئی تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری دعا نواز شریف کے ساتھ ہے کہ وہ جلد از جلد صحتیاب ہوکر واپس آئیں'۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'پرویز مشرف صاحب جب ملک سے باہر گئے تھے تو وہ سزا یافتہ نہیں تھے'۔

اس موقع پر شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ 'ذیلی کمیٹی کے فیصلے میں قانون کا خیال رکھا گیا ہے، نواز شریف کا نام ای سی ایل سے ہٹایا نہیں جارہا، سزا یافتہ مجرم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نہیں نکالا جاسکتا ہے، یہ صرف ایک بار کے لیے ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'کل عوام یا عدالتیں بھی ہم سے سوال کر سکتی تھیں کہ سزا یافتہ مجرم کو بغیر کسی یقین دہانی آپ نے کیسے باہر جانے دیا، جس کی وجہ سے قانونی طریقہ کار اپناتے ہوئے یقین دہانی ہم نے طلب کی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کوئی این آر او یا ڈیل نہیں ہوئی، میرٹ پر فیصلہ ہوا ہے، اگر کسی کو حکومتی فیصلے پر اعتراض ہے تو عدالت جائے'۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کا نام ای سی ایل سے خارج نہ ہوسکا، لندن روانگی میں تاخیر

آصف زرداری کو بھی اس طرح کی مشروط اجازت دیے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'آصف زرداری کی کوئی درخواست ہمیں نہیں ملی ہے'۔

مشروط اجازت کا میمورنڈم جاری

وزارت داخلہ کا میمورنڈم — فوٹو: ڈان نیوز
وزارت داخلہ کا میمورنڈم — فوٹو: ڈان نیوز

بعد ازاں وزارت داخلہ نے نواز شریف کو علاج کی غرض سے ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا میمورنڈم جاری کردیا۔

وزارت داخلہ کے میمورنڈم کے مطابق سابق وزیر اعظم کو 4 ہفتوں کے لیے علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت سیکیورٹی بانڈ جمع کرانے سے مشروط ہے۔

سیکیورٹی بانڈ میں نواز شریف یا ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی جانب سے 2 کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالر یا اس کے مساوی تقریباً 3 ارب 88 کروڑ 75 لاکھ پاکستانی روپے، 80 لاکھ برطانوی پاؤنڈ یا اس کے مساوی ایک ارب 59 کروڑ 70 لاکھ روپے اور ڈیڑھ ارب پاکستانی روپے جمع کرانے کی شرط رکھی گئی ہے۔

بانڈ کی مجموعی رقم تقریباً 7 ارب پاکستانی روپے بنتی ہے جن کے جمع کرانے کے بعد نواز شریف کو 4 ہفتے کے لیے ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

نواز شریف کی صحت اور بیرونِ ملک روانگی کا معاملہ

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے خارج کرنے کے لیے 8 نومبر کو وزارت داخلہ کو درخواست دی تھی۔

نواز شریف کو لاہور ہائی کورٹ سے رہائی کے احکامات کے بعد 6 نومبر کو سروسز ہسپتال سے جاتی امرا منتقل کردیا گیا تھا جہاں ان کے لیے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت شعبے کی سہولیات قائم کی گئی تھیں۔

قبل ازیں انہیں گزشتہ ماہ کے اواخر میں نیب لاہور کے دفتر سے تشویش ناک حالت میں سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کے پلیٹلیٹس کی تعداد 2 ہزار تک پہنچ گئی تھیں۔

ڈاکٹر محمود ایاز کی سربراہی میں سابق وزیر اعظم کے علاج کے لیے 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا اور کراچی سے ڈاکٹر طاہر شمسی کو خصوصی طور پر طلب کیا گیا تھا اور انہوں نے مرض کی تشخیص کی تھی، تاہم نواز شریف کے پلیٹلیٹس کا مسئلہ حل نہ ہوسکا اور ان کی صحت مستقل خطرے سے دوچار رہی۔

اسی دوران مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی ضمانت کے لیے 2 الگ الگ درخواستیں دائر کر دی تھیں۔

لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی نیب حراست سے رہائی سے متعلق تھی، جس پر 25 اکتوبر کو سماعت ہوئی تھی اور اس کیس میں عدالت نے ایک کروڑ روپے کے 2 مچلکوں کے عوض نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے سزا 8 ہفتوں کے لیے معطل کردی تھی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں نواز شریف کے علاج کے حوالے سے واضح کیا کہ اگر ضمانت میں توسیع کی ضرورت پڑی تو صوبائی حکومت سے دوبارہ درخواست کی جاسکتی ہے اور حکومت اس پر فیصلہ کر سکتی تاہم نواز شریف عدالت سے بھی رجوع کرسکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں