پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ

اپ ڈیٹ 19 نومبر 2019
آج پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل کے لیے تیسرا موقع دیا گیا تھا—تصویر:بشکریہ فیس بک
آج پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل کے لیے تیسرا موقع دیا گیا تھا—تصویر:بشکریہ فیس بک

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں جسٹس نذر اکبر، جسٹس شاہد کریم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سنگین غداری کیس کی سماعت کی، جہاں عدالت کے طلب کرنے پر وفاقی سیکریٹری داخلہ بھی پیش ہوئے۔

سماعت میں عدالت کی جانب سے پرویز مشرف کے وکیل کے بارے میں پوچھا گیا جس پر رجسٹرار خصوصی عدالت نے آگاہ کیا کہ وکیل رضا بشیر عمرے کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے ہیں۔

اس پر جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ریمارکس دیے کہ آج پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل کے لیے تیسرا موقع دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف سنگین غداری کیس: حکومت نے استغاثہ کی ٹیم کو فارغ کردیا

دورانِ سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ کیا استغاثہ ٹیم کو ہٹانے سے پہلے عدالت سے اجازت لی گئی تھی؟ جس پر حکومت کی نمائندگی کرنے والے ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے بتایا کہ حکومت تبدیل ہونے کے بعد پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اکرم شیخ کی ہدایت پر استغاثہ کی نئی ٹیم لگائی گئی تھی، تاہم حکومت نے 23 اکتوبر کو استغاثہ کی ٹیم کو برطرف کیا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل کی بات پر جسٹس شاہد کریم نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ عدالت نے آپ کو نہیں سیکرٹری داخلہ کو طلب کیا تھا، انہیں بات کرنے دیں۔

مزید پڑھیں: سنگین غداری کیس: پرویز مشرف کی حکم امتناع کی درخواست مسترد

ساتھ ہی بینچ میں شامل جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل آفس کا اس کیس میں کوئی کردار نہیں ہے، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کو روسٹروم سے ہٹا دیا گیا۔

دوران سماعت جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ریمارکس دیے کہ استغاثہ نے تحریری دلائل جمع کرا دیے تھے جو ہمارے لیے کافی ہیں۔

بعدازاں سماعت میں آدھے گھنٹے کا مختصر وقفہ کیا گیا جس کے بعد خصوصی عدالت نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس کا فیصلہ 28 نومبر تک کے لیے محفوظ کرلیا۔

عدالت نے ہدایت کی کہ سابق صدر کے وکیل چاہیں تو 26 نومبر تک تحریری دلائل جمع کرواسکتے ہیں۔

اس سے قبل 24 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں خصوصی عدالت کو بتایا گیا تھا کہ حکومت نے پروسیکیوشن ٹیم کو معطل کردیا ہے تاہم عدالت کو پوری ٹیم معطل کرنے کی وجوہات سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس: 24 اکتوبر سے روزانہ سماعت کا فیصلہ

ٹیم کی معطلی کی اطلاع نے استغاثہ کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر طارق حسن کو بھی حیران کردیا تھا، جنہوں نے عدالت میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ابھی اس بات کا علم ہوا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا تھا کہ پروسیکیوشن کی جانب سے ستمبر 2014 میں تمام تر شواہد اور تحریری دلائل بھی عدالت میں پیش کیے جاچکے ہیں اور اس مرحلے پر کہ جب مقدمہ منطقی انجام کی جانب گامزن ہے کچھ خاص کارروائی باقی نہیں۔

سنگین غداری کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو اسی سال 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔

اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو پروسیکیوشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف سنگین غداری کیس: جلد فیصلے کیلئے وفاقی حکومت کی اپیل

فروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پروسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔

عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف سنگین غداری کیس: جلد فیصلے کیلئے وفاقی حکومت کی اپیل

تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال 2018 کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھی اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔

بعد ازاں 11 جون 2018 کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں