سنگین غداری کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا

اپ ڈیٹ 27 نومبر 2019
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کو ہدایت کی تھی کہ آپ ابھی پیچھے کرسی پر بیٹھ جائیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کو ہدایت کی تھی کہ آپ ابھی پیچھے کرسی پر بیٹھ جائیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے محفوظ کیے گئے فیصلے کو روکنے کا حکم دے دیا۔

وزارت داخلہ کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سلمان صفدر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کو ہدایت کی کہ آپ ابھی پیچھے کرسی پر بیٹھ جائیں ہم پہلے وزارت داخلہ کو سنیں گے۔

چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ پہلے آپ یہ بتائیں متعلقہ قانون کون سے ہیں؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے دلائل دینے کا آغاز کیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: سنگین غداری کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواست پر سیکریٹری قانون طلب

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کا کیا سرکاری نوٹیفیکشن موجود ہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے انہیں آگاہ کیا کہ جی یہ نوٹیفکیشن موجود ہے۔

سیکریٹری قانون کی عدم موجودگی پر عدالت کا اظہار برہمی

سماعت کے ابتدا میں سیکریٹری قانون و انصاف کی عدم موجودگی پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ آدھے گھنٹے میں سیکریٹری قانون ریکارڈ کے ساتھ عدالت میں پیش ہوں۔

جس کے بعد چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو خصوصی عدالتوں کی تشکیل اور نوٹیفکیشن کے بارے میں بتانے کی ہدایت کی اور استفسار کیا کہ جو قانون آپ نے پڑھا ہے کیا وہ نوٹیفکیشن واپس بھی لے سکتے ہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سے خصوصی عدالت کے ججز کی تقرری ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے نکتہ اٹھاتے ہوئے استفسار کیا کہ آئین کی 18ویں ترمیم میں اکتوبر 1999 کے اقدامات کو بھی معطل کر دیا گیا تھا کیا آپ نے وہ دیکھے ہیں؟ اور آپ نے اٹھارویں ترمیم کے بعد نئی درخواست دائر کیوں نہیں کی؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ چونکہ اس کیس میں وفاقی حکومت درخواست گزار ہے اس وجہ سے عدالت پر کافی بوجھ ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جسٹس وقار سیٹھ، جسٹس نذیر اکبر، جسٹس شاہد کریم پر مشتمل خصوصی عدالت 4 اکتوبر 2019 کو تشکیل ہوئی لیکن وزارت قانون کے نمائندے فائل لے کر باہر چلے گئے۔

مزید پڑھیں: سنگین غداری کیس: فیصلہ روکنے کیلئے حکومت کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست

جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس کو ہدایت کی کہ آپ اپنی ہی پیٹیشن کے صفحہ 5 کے پیرا گراف نمبر 16 کو دوبارہ پڑھیں کیوں کہ آپ سے سوال پوچھ رہے ہیں تو آپ کہتے ہیں فائل باہر چلی گئی ہے۔

'درخواست ہی درست نہیں'

جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ ہفتے رکھ لیتے ہیں آپ تیاری بھی کر لیں گے آپ کہہ رہے ہیں کہ ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں تھی اور اب آپ دلائل سے بتا رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، پھر آپ کی درخواست ہی درست نہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو اتنے سالوں کے بعد اب معلوم ہوا کہ وفاقی حکومت کی داخل کردہ شکایت درست نہیں، اگر ایسا ہے تو آپ اپنی شکایت ہی واپس لے لیں، وزارت داخلہ کو اتنے سال بعد معلوم ہوا کہ غداری کیس کی درخواست ٹھیک نہیں تھی۔

جسٹس محسن کیانی نے مزید ریمارکس دیئے کہ جائیں اور جا کر بیان دیں ہم مشرف کے خلاف درخواست واپس لے رہے ہیں، عدالت میں کیوں آئے ہیں، اگر آپ نے تب غلطی کی تھی تو اب اسے ٹھیک کیسے کرائیں گے؟ کیا آپ نے کابینہ سے اجازت لے کر درخواست دی ہے؟

جس پر چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ جس ٹربیونل میں مشرف کا کیس چل رہا ہے ’آپ اسی ٹربیونل میں جا کر چیلنج کیوں نہیں کر رہے؟' آپ عدالت عالیہ میں کیوں آئے ہیں؟ شکایت کنندہ خود کہہ رہا ہے کہ میری شکایت غلط تھی، کیا آپ پرویز مشرف کا دوبارہ ٹرائل کرانا چاہتے ہیں؟

سماعت میں جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ آج یہ کیس وفاقی کابینہ کی اجازت سے یہاں لے کر آئے ہیں؟ اگر آپ اپنی غلطی تسلیم کر رہے ہیں تو یہی بات متعلقہ ٹریبونل کو جا کر بتائیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کی غلطیاں ہم ہی ٹھیک کریں؟

'کیا حکومت ٹرائل نہیں کرنا چاہتی؟'

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آپ یوں کہیں کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس نہیں چلانا چاہتے، کیا آج وفاقی حکومت پرویز مشرف کے خلاف ٹرائل نہیں کرنا چاہتی؟

جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ یہ بتا دیں کہ اب ہم نے کیا کرنا ہے؟ آپ ہم سے کیا آرڈر چاہتے ہیں؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ غداری کیس چلانے کی درخواست بھی غلط تھی اور ٹرائل کا فورم بھی۔

جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ہماری استدعا ہے کہ خصوصی عدالت کیس کا فیصلہ نہ کرے، کیوں کہ ابھی پروسیکیوشن کو سنا نہیں گیا۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت نے پروسیکیوشن کا نوٹیفکیشن جاری کرنا تھا، سابق وفاقی حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کیا اور آپ نے واپس لے لیا۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت سے پوچھا کہ ہمیں صاف بتا دیں حکومت چاہتی کیا ہے؟ غلطی آپ کی ہے، درست بھی آپ نے کرنی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک شخص ہمیں آکر کہہ رہا ہے میں نے غلطی کی ہے آپ اس کو غلطی ڈیکلئیر کریں، یہ ہم سب کے لیے ایک انتہائی پیچیدہ کیس ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک شخص نے عدلیہ پر وار کیا تھا ہمارے سامنے اُس کا کیس ہے، وہ شخص اشتہاری بھی ہو چکا ہے، پیچیدگی یہ ہے کہ ہم نے اس سب کے باوجود اس کے فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پروسیکیوشن ٹیم کے سربراہ کے مستعفی ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے کوئی نئی تعیناتی نہیں کی، ایک سال سے پروسیکیوشن ٹیم کے سربراہ کی تعیناتی نہیں کی گئی۔

جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ اس کا تو یہی مطلب ہے کہ آپ پرویز مشرف کے خلاف کیس چلانا ہی نہیں چاہتے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 4 دسمبر کو پروسیکوشن ٹیم کے سربراہ کو نوٹیفائی کیا گیا تھا اور 30 جولائی 2018 کو پروسیکوشن کے سربراہ نے استعفی دے دیا تھا بعدازاں ٹیم کو 23 اکتوبر 2019 کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیس کی سماعت کب ہوئی تھی جس کے جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کیس کی سماعت 24 اکتوبر 2019 کو تھی۔

'پروسیکیوشن سربراہ کو تعینات کیوں نہیں کیا گیا؟'

جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ ایک سال سے آپ نے پروسیکیوشن کا سربراہ کیوں نہیں تعینات کیا، انہیں کس نے تعینات کرنا تھا، عدلیہ یا ایگزیکٹو نے؟ جواباً سرکاری وکیل نے کہا کہ ایگزیکٹو نے کرنا تھا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ایسی حکومت کے وزرات قانون انصاف کے سیکریٹری کے آنے کی کوئی ضرورت ہے؟ وزارت قانون جو نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے وہ غلط ہوتا ہے اور سزا پھر ساری قوم کو بھگتنی پڑتی ہے۔

جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزارت قانون کا یہ حال ہے اور ہمیں آکر یہ بتا رہی ہے کہ جو کیا سب کچھ غلط کیا۔

سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے ہدایت کی کہ طاہرہ صفدر کی ریٹائرمنٹ کے بعد خالی ہونے والی پوسٹ کا نوٹیفکیشن دکھائیں۔

بعدازاں طلب کیے جانے پر سیکریٹری قانون عدالت میں پیش ہوئے جو جسٹس عامر فاروق نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کا یہ رویہ ہے کہ کیس ساڑھے 12 بجے ہے اور آپ ڈیڑھ بجے آتے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ کے مطابق تو خصوصی عدالت کی تشکیل درست ہے پھر وزارت داخلہ نے درخواست میں کیوں لکھا کہ عدالت کی تشکیل درست نہیں تھی۔

جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ حتمی دلائل دینے والی پروسیکیوشن ٹیم قانونی نہیں تھی۔

جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی اس بات پر استفسار کیا کہ آپ نے غلطی کی آپ ہی ٹھیک کریں گے، تو ہم کیا کریں؟ آپ نے خصوصی عدالت کو یہ ساری باتیں بتائی ہی نہیں اور اب جب فیصلہ آنے والا ہے تو آپ یہاں آ گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: سنگین غداری کا فیصلہ روکنے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پروسیکیوشن ٹیم کے ڈی نوٹی فائی ہونے کے بعد خصوصی عدالت میں دیے گئے دلائل غیر قانونی تھے۔

'آپ نے غلطی کی آپ ہی سدھاریں'

دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ہی پروسیکیوشن ٹیم نوٹی فائی کرنی تھی، آپ غلطی کرنے والے ہیں، آپ نے ہی غلطی سدھارنی ہے۔

عدالت کے سوال پر سیکریٹری قانون نے بتایا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کابینہ سے منظوری کے بعد ہوئی۔

جس پر عدالت نے دریافت کیا کہ اگر خصوصی عدالت قانون کے مطابق بنی تو پھر آپ نے درخواست میں کیوں غلط لکھا؟کیا وزارت قانون یا اٹارنی جنرل نے کہیں ایڈوائس کیا کہ یہ شکایت غلط تھی؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ خصوصی عدالت نے پروسیکیوشن ٹیم کے تقرر کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔

سماعت میں توفیق آصف ایڈووکیٹ نے بولنے کی کوشش کی تو عدالت نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ تمام غیر متعلقہ لوگ بیٹھ جائیں، جس پر انہوں نے کہا کہ میں غیر متعلقہ نہیں ہوں۔

توصیف آصف ایڈووکیٹ نے عدالت میں عرض کی کہ میں سپریم کورٹ میں غداری کیس میں پٹیشنر تھا اور کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کو تو آئین سے اصل انحراف کی شکایت داخل کرانی چاہیے تھی، 3 نومبر کی ایمرجنسی تو ججز کے خلاف تھی، ہمیں آپ نے مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔

بعدازاں عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کو ڈائس پر بلالیا جنہوں نے بتایا کہ یہ درخواست میں نے اپنے نام سے دائر کی تھی پرویز مشرف کی جانب سے نہیں تھی۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت کو کہا کہ آپ کے لیے ٹیسٹ کیس ہے، میں نے پرویز مشرف کی جانب سے درخواست نہیں دی کیوں کہ جب کوئی ملزم اشتہاری ہو جائے تو اس کی جانب سے کوئی وکالت نامہ داخل نہیں کرایا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: مشرف نے فیصلہ محفوظ کرنے کا اقدام لاہورہائیکورٹ میں چینلج کردیا

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے ملزم پرویز مشرف کے لیے وکیل مقرر کیا جو عمرے پر گئے تو انہیں بھی نہیں سنا گیا، اگر اشتہاری کو کوئی دوسرا وکیل دیا جا رہا ہے تو مجھے پیش ہونے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی۔

سلمان صفدر نے کہا کہ میں نے 9 اکتوبر 2018 کو وکالت نامہ داخل کیا، اس وقت پرویز مشرف مفرور تھے اور 12 جون 2019 کو مجھے پرویز مشرف کی جانب سے پیش ہونے سے روک دیا گیا۔

جس پر عدالت نے انہیں ریمارکس دیئے کہ آپ عدالتی مفرور سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ لیجیئے، وہ تو وکالت نامے پر بھی دستخط نہیں کرسکتا۔

جسٹس عامر فاروق نے ان سے دریافت کیا کہ کیا خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو وڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کی آپشن دی تھی ؟

جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ جی، عدالت نے آپشن دیا مگر انہوں نے اسے قبول نہیں کیا، پرویز مشرف بیمار ہیں اور اس پوزیشن میں نہیں کہ ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرا سکیں، جب ملزم کی مرضی کے وکیل کو نہیں سنا جا رہا تو فیئر ٹرائل تو وہیں پر مصالحت کا شکار ہوگیا۔

'میرا کیس یہ ہے کہ مجھے کیوں نکالا'

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ میرا کیس یہ ہے کہ مجھے کیوں نکالا ہے؟ جس پر عدالت میں قہقے گونج اٹھے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ پروسیکیوشن کا کام ہے کہ ملزم کے حق میں بھی کوئی مواد ہو تو سامنے لائے، ورنہ فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔

جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے خدشہ ظاہر کیا کہ پروسیکوشن ہماری تھی کہیں ساری صورتحال کا فائدہ مشرف کو نہ مل جائے کیوں کہ اگر تکنیکی مسائل کی وجہ سے فائدہ ملزم کو مل گیا تو کل جگ ہنسائی ہو گی۔

اس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ رکوانے کے لیے دائر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا جسے بعد ازاں سناتے ہوئے خصوصی عدالت کا 19 نومبر کا حکمنامہ کالعدم قرار دے دیا اور اسے فیصلہ سنانے سے روک دیا۔

عدالت عالیہ نے وفاقی حکومت کو 5 دسمبر تک غداری کیس کا نیا پراسیکیوٹر تعینات کرنے کا حکم بھی دیا اور خصوصی عدالت کو تمام فریقین کو سن کر فیصلہ کرنے کی ہدایت دی۔

سنگین غداری کیس

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین و معطل کرنے کے خلاف سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج کیا تھا جس کی متعدد سماعتوں میں وہ پیش بھی نہیں ہوئے اور بعد ازاں بیماری کی وجہ سے ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے رواں سال 19 نومبر 2019 کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 28 نومبر کو سنایا جانا تھا۔

تاہم مذکورہ فیصلے کو روکنے کے خلاف پرویز مشرف نے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔

ساتھ ہی وفاقی حکومت نے بھی خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے باز رکھنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کی گزشتہ روز ہونے والی پہلی سماعت پر عدالت نے متعلقہ ریکارڈ اور سیکریٹری قانون کو طلب کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں