اسلام آباد ہائیکورٹ: مفتاح اسمٰعیل کی درخواست ضمانت پر نیب سے جواب طلب

اپ ڈیٹ 29 نومبر 2019
نیب نے سابق وزیر خزانہ کو ایل این جی ٹرمینل کیس کے سلسلے میں 7 اگست کو گرفتار کیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
نیب نے سابق وزیر خزانہ کو ایل این جی ٹرمینل کیس کے سلسلے میں 7 اگست کو گرفتار کیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی جانب سے دائر کردہ ضمانت کی درخواست پر قومی احتساب بیورو (نیب) سے پیراگراف در پیراگراف جواب طلب کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل بینچ نے مفتاح اسمٰعیل کی درخواستِ ضمانت کی سماعت کی، جو مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کے ٹھیکوں سے متعلق کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں 4 ماہ سے زیر حراست ہیں۔

مذکورہ کیس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی جولائی سے زیر حراست ہیں جبکہ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر شیخ عمران الحق بھی تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایل این جی کیس: سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل گرفتار

واضح رہے کہ جسٹس اطہر من اللہ نے شیخ عمران الحق کی بعد ازگرفتاری ضمانت کے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ ایل این جی کیس ’بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی نایاب مثال ہے‘۔

فیصلے میں عدالت نے اس کیس میں ناتجربہ کار تفتیش کاروں کے ناقص طریقہ کار پر روشنی ڈالی تھی اور کہا تھا کہ ریکارڈ میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے معلوم ہو کہ تفتیش اور انکوائری کے دوران اعداد و شمار کا پیشہ ور طریقے سے تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

فیصلے میں تفتیشی افسر کے اعداد و شمار کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا تھا کہ قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کے تخمینے کو ثابت کرنے کے لیے بھی ریکارڈ پر کوئی مواد نہیں۔

ادھر دوران سماعت مفتاح اسمٰعیل کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ نیب نے ان کے موکل کو ایل این جی ٹرمینل کیس کے سلسلے میں 7 اگست کو گرفتار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایل این جی ریفرنس دو ہفتے میں دائر کیا جائے گا، نیب

وکیل کے مطابق ’درخواست گزار کو جن وجوہات کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا وہ ایک معزز شہری کو مسلسل زیر حراست رکھنے کے لیے ناکافی ہیں'۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ نیب مفتاح اسمٰعیل کی مبینہ بدعنوانی کے باعث قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان پر بھی روشنی ڈالنے میں ناکام رہا۔

عدالت میں دائر درخواست کے مطابق نیب کوئی ثبوت یا ٹھوس اعداد و شمار فراہم کیے بغیر ایل این جی منصوبے کا ٹھیکہ دینے میں جعلسازی کیے جانے اور مہنگی لاگت کے الزامات عائد کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایل این جی کیس: مفتاح اسمٰعیل کا 11 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

درخواست کے مطابق مفتاح اسمٰعیل کو مسلسل زیر حراست رکھنے کے باوجود یہ بات واضح ہے کہ نیب نے انتہائی لاگت کے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی مواد فراہم نہیں کیا۔

ایل این جی کیس

واضح رہے کہ شاہد خاقان عباسی کو 18 جولائی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں گرفتار کیا تھا، اس کے علاوہ 7 اگست کو ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد ہونے پر مفتاح اسمٰعیل کو عدالت سے گرفتار کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر الزام ہے کہ انہوں نے اس وقت قوائد کے خلاف ایل این جی ٹرمینل کے لیے 15 سال کا ٹھیکہ دیا، یہ ٹھیکہ اس وقت دیا گیا تھا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں شاہد خاقان عباسی وزیر پیٹرولیم تھے۔

نیب کی جانب سے اس کیس کو 2016 میں بند کردیا گیا تھا لیکن بعد ازاں 2018 میں اسے دوبارہ کھولا گیا۔

یاد رہے کہ نیب انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کی انتظامیہ نے غیر شفاف طریقے سے ایم/ایس اینگرو کو کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل کا کامیاب بولی دہندہ قرار دیا تھا۔

اس کے ساتھ ایس ایس جی سی ایل نے اینگرو کی ایک ذیلی کمپنی کو روزانہ کی مقررہ قیمت پر ایل این جی کی ریگیسفائینگ کے 15 ٹھیکے تفویض کیے تھے۔

نہ صرف شاہد خاقان عباسی بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر بھی اپنی مرضی کی 15 مختلف کمپنیوں کو ایل این جی ٹرمینل کا ٹھیکہ دے کر اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف نیب تحقیقات اگلے مرحلے میں داخل

2016 میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں نیب کراچی میں منعقدہ ریجنل بورڈ کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری بند کردی گئی تھی۔

رواں برس 2 جنوری کو ای بی ایم نے اس وقت شاہد خاقان عباسی کے خلاف 2 انکوائریز کی منظوری دی تھی، جب وہ سابق وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے۔

ان انکوائریز میں سے ایک ایل این جی کی درآمدات میں بے ضابطگیوں میں ان کی مبینہ شمولیت جبکہ دوسری نعیم الدین خان کو بینک آف پنجاب کا صدر مقرر کرنے سے متعلق تھی۔

تاہم شاہد خاقان عباسی کا موقف ہے کہ انہوں نے ایل این جی کی درآمد کے لیے دیے گئے ٹھیکے میں کوئی بے ضابطگی نہیں کی اور وہ ہر فورم پر اپنی بے گناہی ثابت کرسکتے ہیں اور یہ کہ 2013 میں ایل این جی کی برآمدات وقت کی اہم ضرورت تھی۔

مزید پڑھیں: ایل این جی کے ’غیر شفاف‘ ٹھیکوں پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ

اس سلسلے میں رواں برس مارچ میں سابق وزیر اعظم ایل این جی کیس میں نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے، جس کے بعد احتساب کے ادارے نے ان پر سفری پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔

جس کے بعد اپریل میں حکومت نے 36 ارب 69 کروڑ 90 لاکھ روپے مالیت کے ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سمیت 5 افراد کے بیرونِ ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔

بعدازاں سابق وزیراعظم جون میں بھی تفتیش کے لیے نیب میں پیش ہوئے تھے تاہم نیب نے شاہد خاقان عباسی کو ان کے خلاف جاری تفتیش کے پیشِ نظر ایک مرتبہ پھر بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں