فیس بک کی جانب سے جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے متعدد اقدامات کیے جارہے ہیں مگر ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ کسی حکومت کی ہدایت پر اس نے کسی پوسٹ کو فیک قرار دیا ہو۔

فیس بک کی جانب سے پہلی بار سنگاپور کی حکومت کی ہدایت پر ایک نیوز ویب سائٹ کی پوسٹ پر درستگی کا نوٹس کا اضافہ کیا گیا اور پہلی بار ہے کہ سنگاپوری حکومت کے فیک نیوز کے نئے قوانین کا اطلاق سرحد کے باہر کیا گیا۔

نیوز سائٹ اسٹیٹس ٹائمز ریویو کی ایک پوسٹ کے بارے میں سنگاپور کی حکومت کا کہنا تھا کہ یہ بدزبانی پر مبنی الزامات ہیں۔

اس پوسٹ میں سنگاپور کی حکومت پر انتخابی دھاندگی اور مبینہ طور پر ان کو سامنے لانے والے کی گرفتاری کے الزامات تھے۔

سنگاپور کی حکومت نے اس سے پہلے اس سائٹ کے ایڈیٹر ایلکس ٹین کو ہدایت کی تھی کہ وہ پوسٹ کو درست کرے مگر آسٹریلین شہری نے 'کسی غیرملکی حکومت کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا'۔

ایلکس ٹین کی پیدائش سنگاپور میں ہوئی تھی مگر اب وہ آسٹریلیا میں مقیم اور وہاں کی شہریت رکھتے ہیں اور ایک فالو اپ پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ وہ غیرمنصفانہ قانون کی مزاحمت اور خلاف ورزی کرتے رہیں گے۔

انہوں نے یہ مضمون ٹوئٹر، لنکڈن اور گوگل ڈاکس پر پوسٹ کیا اور حکومت کو چیلنج کیا کہ وہاں بھی اسے درست کراکے دکھائے۔

فیس بک کی جانب سے سائٹ کی پوسٹ پر جس نوٹ کا اضافہ کای گیا، اس پر لکھا تھا 'ہم قانونی طور پر پابندی ہے کہ آپ کو آگاہ کریں گے کہ سنگاپور حکومت کا کہنا ہے کہ اس پوسٹ کی تفصیلات فرضی ہیں'۔

یہ نوٹ اوریجنل پوسٹ کے نیچے موجود ہے اور صرف سنگاپور کے سوشل میڈیا صارفین ہی اسے دیکھ سکتے ہیں۔

ایک بیان میں فیس بک کا کہنا تھا کہ اس نے یہ لیبل فیک نیوز قانون کے تحت لگایا ہے۔

اس قانون کا اطلاق اکتوبر میں ہوا تھا۔

فیس بک کی ٹرانسپیرنسی رپورٹ کے مطابق یہ کمپنی ایسے مواد کو بلاک کرتی رہتی ہے جن کو دنیا بھر میں حکومتوں کی جانب سے مقامی قوانین کی خلاف ورزی قرار جاتا ہے اور رواں برس جنوری سے جون تک دنیا بھر میں ایسی 18 ہزار کے قریب درخواستیں کمپنی کو موصول ہوئیں۔

فیس بک کا ایشیائی ہیڈ آفس سنگاپور میں ہے اور اس کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ اس قانون سے آزادی رائے پر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

جو کوئی اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا اسے بھاری جرمانے اور 5 سال قید تک کی سزا کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اس قانون کے تحت جعلی اکاﺅنٹس یا فرضی خبریں پھیلانے والے بوٹس پر پابندی عائد کی جاسکے گی جبکہ 10 لاکھ ڈالرز جرمانے اور 10 سال قید کی سزا دی جاسکے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں