بغاوت کیس: عالمگیر وزیر کے جسمانی ریمانڈ کیلئے پولیس کی استدعا مسترد

02 دسمبر 2019
پولیس نے بغاوت کیس میں عالمگیر وزیر کو گرفتار کیا تھا—فائل فوٹو: عمار علی جان ٹوئٹر
پولیس نے بغاوت کیس میں عالمگیر وزیر کو گرفتار کیا تھا—فائل فوٹو: عمار علی جان ٹوئٹر

لاہور کی مقامی عدالت نے طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین اور شرکا کے خلاف درج غداری کے مقدمے میں 2 روز قبل حراست میں لیے جانے والے عالمگیر وزیر کے جسمانی ریمانڈ کے لیے پولیس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

کینٹ کچہری میں ہونے والی سماعت کے دوران عالمگیر وزیر کو پیش کیا گیا اور پولیس کی جانب سے ان کے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

پولیس کی جانب سے کہا گیا کہ عالمگیر وزیر کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے کیونکہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے ملزم کی نشاندہی پر دیگر ساتھیوں کی کو کرنا باقی ہے۔

مزید پڑھیں: طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین اور شرکا کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج

دوران سماعت پولیس کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ عالمگیر وزیر کو یکم دسمبر کو ریاست مخالف تقریر پر گرفتار کیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ساؤنڈ سسٹم ایکٹ کی خلاف ورزی بھی کی ہے جبکہ ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کی ہے۔

اس کے علاوہ پولیس کا کہنا تھا کہ عالمگیر وزیر نے عوام کے لیے مشکلات پیدا کریں اور سڑک بند کرکے قانون کی خلاف ورزی کی۔ تاہم اس دوران عالمگیر وزیر کے وکیل نے پولیس کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کی اور کہا کہ چونکہ ان کے پاس سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے، ان کے موکل سے مزید کسی نشاندہی کی ضرورت نہیں۔

علاوہ ازیں عدالت نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کے پاس سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے اور انہیں عالمگیر سے مزید کسی برآمدگی کی ضرورت نہیں ہے۔

بعد ازاں عدالت نے تفتیشی افسر کو 16 دسمبر تک کیس کا چالان پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے عالمگیر کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

خیال رہے کہ سول لائن پولیس نے ریاست کی مدعیت میں مارچ کے منتظمین عمار علی جان، فاروق طارق، (مشال خان کے والد) اقبال لالا، (پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور ایم این اے علی وزیر کے بھتیجے) عالمگیر وزیر، محمد شبیر اور کامل کے علاوہ 250 سے 300 نامعلوم شرکا کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

اس حوالے سے کیپیٹل سٹی پولیس افسر ذوالفقار حمید نے ڈان کو بتایا تھا کہ ایک مشتبہ شخص عالمگیر وزیر کو 2 روز قبل اس کیس میں گرفتار کرلیا گیا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ یہ کیس ریاست کی جانب سے درج کروایا گیا کیونکہ طلبہ اشتعال انگیز تقاریر کررہے تھے اور ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس اس کیس میں ملوث دیگر لوگوں کو بھی گرفتار کرے گی۔

واضح رہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے سابق طالبعلم عالمگیر وزیرجو پختون کونسل کے چیئرمین بھی بن گئے تھے وہ 2 روز قبل کیمپس سے لاپتہ ہوگئے تھے، انہوں نے گزشتہ برس اپنا بی ایس جینڈر اسٹڈیز مکمل کیا اور وہ وہاں اپنی ڈگری کے حصول کے لیے تھے، وہ اپنے کزن محمد ریاض کے ہمراہ ہاسٹل نمبر 19 میں رہ رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں طلبہ یکجہتی مارچ

علاوہ ازیں پختون کونسل کے طلبہ نے عالمگیر وزیر کی گرفتاری کے خلاف پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے گھر کے باہر احتجاج کیا۔

عبوری ضمانت منظور

خیال رہے کہ اس واقعے سے متعلق درج ایف آئی آر کے مطابق شکایت کنندہ سب انسپکٹر محمد نواز کا کہنا تھا کہ وہ پیٹرولنگ پر تھا جب اسے اطلاع ملی کہ 250 سے 300 افراد کی ریلی عمار علی جان، فاروق طارق، اقبال لالا، عالمگیر وزیر، محمد شبیر اور کامل خان کی قیادت میں نکالی جارہی ہے اور یہ ریلی دی مال پر فیصل چوک پر پہنچ گئی ہے، جہاں مظاہرین نے زبردستی سڑک بلاک کردی ہے تاکہ وہ اسٹیج بنا کر تقاریر کرسکیں۔

دوسری جانب لاہور کی سیشن عدالت نے اسی کیس میں نامزد عمار علی جان اور کامل خان کی عبوری ضمانت منظور کرلی۔

عدالت نے پولیس کو ان کو گرفتار کرنے سے روکتے ہوئے 50 ہزار روپے فی کس ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

ساتھ ہی سماعت کو 16 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے سول لائن پولیس کو مکمل رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں