بھارت:متنازع شہریت قانون پر احتجاج کے دوران مردم شماری کیلئے فنڈز کی منظوری

اپ ڈیٹ 25 دسمبر 2019
بھارت کی مرکزی حکومت کی کابینہ نے مردم شماری کے لیے فنڈز منظور کردیا—فوٹو:رائٹرز
بھارت کی مرکزی حکومت کی کابینہ نے مردم شماری کے لیے فنڈز منظور کردیا—فوٹو:رائٹرز

بھارت کی وفاقی کابینہ نے ملک میں اگلے برس مردم شماری اور آبادی کے حوالے سے سروے کے لیے فنڈز کی منظوری دے دی جبکہ شہریت کے حوالے سے متنازع قانون کے حوالے سے ملک گیر احتجاج جاری ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مردم شماری اور سروے سے حاصل کردہ دستاویزات کو مبینہ طور پر شہریوں کی متنازع رجسٹریشن کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

اطلاعات و نشریات کے وزیر پراکاشن جویدکر نے صحافیوں کو بتایا کہ حکومت نے 87 ارب 54 کروڑ بھارتی روپے (ایک ارب 23 کروڑ ڈالر) مردم شماری اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے 39 ارب 41 کروڑ بھارتی روپے مختص کردیے ہیں۔

مزید پڑھیں:بھارتی طالبہ نے شہریت قانون کیخلاف احتجاجاً گولڈ میڈل ٹھکرا دیا

مردم شماری کے تحت معلومات آبادی، معاشی سرگرمیوں، سماجی اور ثقافتی پہلوؤں، ہجرت اور علاقائی اور نچلی سطح پر انتظامی سطح پر حاصل کی جائیں گی۔

رپورٹ کے مطابق این پی آر بھارت کے تمام شہریوں کی شناخت کے حوالے سے ایک مکمل ڈیٹا بیس بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔

بھارت میں مردم شماری اور آبادی کا سروے اگلے برس اپریل میں شروع ہوگا۔

بھارتی وزیر اطلاعات و نشریات پراکاشن جویدکر کا کہنا تھا کہ مردم شماری کا شہریوں کی رجسٹریشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بھارت میں اس وقت ہزاروں شہری وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے بنائے گئے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف سڑکوں پر ہیں جس میں 2015 سے پہلے افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھارت آنے والے غیر مسلم افراد کو شہریت دینے کی اجازت دی گئی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کے اس متنازع قانون کے خلاف بھارت کے بڑے شہروں میں ہونے والے شدید احتجاج کے دوران اب تک 25 سے زائد افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:’متنازع شہریت قانون‘ کو غیر قانونی کہنے پر بھارتی جاوید جعفری پر برس پڑے

مسلمان اور غیر مسلموں پر مشتمل ہزاروں مظاہرین کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کا یہ قانون مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے اور بھارت کے سیکیولر آئین کی خلاف ورزی ہے کیونکہ آئین میں مذہب کی بنیاد پر شہریت کی گنجائش نہیں ہے۔

مظاہرین کے مطابق متنازع قانون اور شہریوں کی رجسٹریشن کا معاملہ مسلم اقلیت کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ بھارت کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا نے مذکورہ بل 9 دسمبر 2019 جب کہ ایوان بالا یعنی لوک راجیا سبھا نے 11 دسمبر کو منظور کیا تھا اور اگلے دن بھارتی صدر نے اس بل پر دستخط کردیے تھے جس کے بعد مذکورہ بل قانون بن گیا تھا۔

اس قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیر مسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

اس قانون کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں