’بھارت پروپیگنڈے کے بجائے اقلیتوں کو ہندو انتہا پسندوں سے بچائے‘

اپ ڈیٹ 06 جنوری 2020
دفتر خارجہ نے پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے متعلق بھارتی پروپیگنڈے کو مسترد کردیا — فائل فوٹو: اے ایف پی
دفتر خارجہ نے پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے متعلق بھارتی پروپیگنڈے کو مسترد کردیا — فائل فوٹو: اے ایف پی

دفتر خارجہ نے پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے متعلق بھارتی پروپیگنڈا مسترد کردیا جبکہ بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے اقلیتوں کو ’ہندو انتہاپسندوں کی دہشت گردی' سے محفوظ رکھنے کا مطالبہ کیا۔

اس حوالے سے دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) سے متاثر بی جے پی حکومت کے پاس یہ دعویٰ کرنے کی سند نہیں کہ وہ اقلیتوں کی محافظ ہے‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’وہ جو بابری مسجد کی بے حرمتی اور اسے شہید کرنے، بڑے پیمانے پر گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتلِ عام، اشتعال انگیز ہجوموں کے واقعات اور اقلیتوں کے خلاف بارہا نفرت پر مبنی جرائم کے ذمہ دار ہیں، وہ اپنے اس موقف کی حمایت نہیں کرسکتے‘۔

مزید پڑھیں: ننکانہ صاحب واقعے کو مذہبی رنگ دینا غلط ہے، دفتر خارجہ

اس میں کہا گیا کہ ’بی جے پی حکومت اپنے ملک میں جاری انسانی المیے اور بھارت کی اقلیتوں کو ہندو انتہا پسندوں کی دہشت گردی سے محفوظ کرنے پر توجہ مرکوز کرے تو بہتر ہوگا‘۔

دفتر خارجہ نے پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے متعلق بھارتی پروپیگنڈے کو مسترد کردیا۔

خیال رہے کہ 3 جنوری کو پنجاب کے شہر ننکانہ صاحب میں ایک معمولی مسئلے پر گوردوارہ جنم استھان کے باہر دو گروہوں کے درمیان ہونے والی بحث جھگڑے کی صورت اختیار کرگئی تھی لیکن ایک فرد نے تنازع کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ننکانہ صاحب واقعہ کے ذمے داروں کو کسی قسم کا تحفظ نہیں ملے گا، وزیر اعظم

تاہم شہری انتظامیہ نے بروقت مداخلت کرکے اس کوشش کو ناکام بنادیا تھا اور ذمہ داران کو حراست میں لے لیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق گوردوارہ جنم استھان کے سامنے قائم زمان نامی شخص کے چائے کے اسٹال پر 4 افراد چائے پی رہے تھے جنہوں نے اس کے بھتیجے محمد احسان کے بارے میں بات کرنی شروع کردی تھی۔

واضح رہے کہ محمد احسان کا نام کچھ ماہ قبل اس وقت خبروں میں آیا تھا جب اس پر ایک سکھ لڑکی سے مبینہ طور پر جبراً مذہب تبدیل کروانے کے بعد شادی کا الزام لگا تھا جس کے بعد اسے گرفتار بھی کرلیا گیا تھا۔

بعدازاں وزیراعظم عمران خان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ننکانہ صاحب میں رونما ہونے والا واقعہ ان کی سوچ کی نفی کرتا ہے اور اس کے ذمہ داروں کو پولیس اور عدلیہ سمیت حکومت سے کسی قسم کی رعایت یا تحفظ نہیں ملے گا۔

وزیر اعظم عمران خان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہ تھا کہ ننکانہ کے قابل مذمت واقعے اور پورے ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جاری حملوں میں نمایاں فرق ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں