خصوصی عدالت نے فیصلہ کن بنیادوں پر دیا ہم اسے نہیں دیکھ سکتے، لاہور ہائیکورٹ

اپ ڈیٹ 09 جنوری 2020
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی 3 متفرق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ خصوصی عدالت نے فیصلہ کن بنیادوں پر دیا، ہم اسے نہیں دیکھ سکتے۔

واضح رہے کہ پرویز مشرف کی ان درخواستوں میں سابق صدر نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس اس کا فیصلہ، ٹرائل کورٹ کا قیام اور اُس وقت کی حکومت کی جانب سے دائر کردہ شکایت سمیت مخلتف اقدامات کو چیلنج کیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد امیر بھٹی اور جسٹس چوہدری مسعود جہانگیر پر مشتمل فل بینچ نے مذکورہ معاملے کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے پرویز مشرف کے وکلا سے پوچھا کہ آپ کا کیس کیا ہے، جس پر بینچ کو بتایا گیا کہ پرویز مشرف کا کیس بالکل سیدھا سا ہے اور وہ یہ کہ خصوصی عدالت کی تشکیل غیر قانونی ہے۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا

انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور انکوائری شروع کرنے کے اقدام کو چیلنج کیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر کسی عمارت کی بنیاد ہی غلط ہوگی تو وہ گرجائے گی۔

اس پر عدالت نے درست معاونت نہ کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا اور استفسار کیا کہ کیا آپ نے اپنا کیس پڑھا ہے کیا آپ نے تیاری کی ہے کیس کی؟

ساتھ ہی فل بینچ نے بیرسٹر علی ظفر کو معاونت کے لیے عدالت میں طلب کرلیا۔

فل بینچ کی جانب سے کہا گیا کہ پرویز مشرف کے وکیل سے کہا گیا کہ آپ وقت لے لیں اور تیاری کے ساتھ آئیں، یہ اہم معاملہ ہے آپ اسے آسان نہ لیں۔

علاوہ ازیں عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل اظہر صدیق سے کہا کہ آپ دلائل دیں، جس پر انہوں نے بتایا کہ اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے ذاتی وجہ پر یہ کیس بنایا۔

اظہر صدیق کے مطابق سنگین غداری ایکٹ میں 2010 میں ترمیم کی گئی اور ایمرجنسی کو نافذ کرنے کے عمل کو بھی شامل کیا گیا۔

اس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ عدالت نے سوال پوچھے تھے کہ آئین معطلی اور ایمرجنسی لگانا دو مختلف چیزیں ہیں؟ ساتھ ہی جسٹس محمد امیر بھٹی نے استفسار کیا کہ ایمرجنسی کیا صدر نے لگانی ہے یا جنرل نے؟

بعد ازاں عدالتی استفسار پر جواب دیا گیا لفظ چیف ایگزیکٹو کا استعمال کیا گیا ہے، اسی دوران جسٹس مسعود جہانگیر نے پوچھا کہ کیا 12 اکتوبر اور 3 نومبر کے اقدامات دو مختلف چیزیں نہیں؟

سماعت کے دوران جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پوچھا کہ ٹرائل کورٹ نے کس سیکشن کے تحت پرویز مشرف پر فرد جرم لگائی، اس پر عدالت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے فرد جرم پڑھ کر سنائی۔

اشتیاق اے خان نے کہا کہ فرد جرم میں لکھا گیا کہ ایمرجنسی لگا کر آئین توڑا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ تہذیب اور اقدار سے بالاتر ہے'

بعد ازاں عدالت نے کچھ دیر کے لیے سماعت ملتوی کردی، ساتھ ہی جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ پرویز مشرف کے وکلا فیصلہ کرلیں کہ اس کیس پر کس نے دلائل دینے ہیں۔

وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ شکایت درج ہونے کے بعد انکوائری ہوتی ہے، اس کیس میں انکوائری پہلے ہوئی اور شکایت بعد میں درج ہوئی۔

ساتھ ہی جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کابینہ کو انکوائری شروع کرنے کے لیے خط لکھا، کابینہ نے اس کی منظوری دی یا اس کا جواب دیا ہو تو وہ جواب کہاں ہے، جس پر وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ کابینہ کا کوئی جواب ریکارڈ پر نہیں ہے۔

اس پر جسٹس مسعود جہانگیر نے وفاقی حکومت کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں نہ کابینہ کی منظوری ہے نا وفاقی حکومت نے انکوائری کا کہا ہے۔

ساتھ ہی جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف جو شکایت درج کی گئی اس پر شکایت کنندہ کے دستخط نہیں ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے شکایت درج کرنے کے لیے کس کو نامزد کیا؟ اس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ سیکریٹری داخلہ کو نامزد کیا گیا تھا کہ وہ شکایت درج کریں۔

اس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا جس شخص کے نام سے شکایت ہے، ٹرائل میں اس کا بیان ریکارڈ ہوا، جس پر جواب دیا گیا کہ سیکریٹری داخلہ شاہد خان کو گواہی کے لیے طلب کیا گیا تھا۔

وکیل کے جواب پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف کے معاملے میں انکوائری ہوئی ہے، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس معاملے پر ایف آئی اے نے انکوائری کی، جس پر عدالت نے پھر پوچھا کہ ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ میں کیا تھا؟

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس رپورٹ میں پرویز مشرف کےعمل کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا، اسی پر عدالت نے پوچھا کہ کیا یہ رپورٹ خصوصی عدالت میں پیش کی گئی، جس کے جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ رپورٹ خصوصی عدالت میں پیش کی گئی مگرفرد جرم میں اس کا ذکر نہیں ہے۔

اسی پر پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ انکوائری رپورٹ کی بنیاد پر درخواست خصوصی عدالت میں بھیجی گئی، جس پر عدالت نے پوچھا کہ اگر 342 کا بیان ریکارڈ نہ کیا گیا ہو تو ملزم کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے؟

عدالتی استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بیان قلمبند کیے بغیر کارروائی آگے نہیں بڑھائی جاسکتی۔

دوران سماعت عدالت کی جانب سے ریمارکس سامنے آئے کہ خصوصی عدالت نے فیصلہ کن بنیادوں پر دیا؟ ہم اسے نہیں دیکھ سکتے، ہم صرف یہ دیکھ سکتے ہیں کہ جو کارروائی شروع کی گئی وہ قانون کے مطابق تھی یا نہیں۔

فل بینچ نے پوچھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کب عمل میں لائی تھی، جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ 18 نومبر 2013 کو خصوصی عدالت کی تشکیل ہو گئی تھی۔

اس پر بینچ نے استفسار کیا کہ پرویز مشرف کے خلاف شکایت کب درج کی گئی تھی، جس پر بتایا گیا کہ 11 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کی گئی تھی۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملے کی آج کی سماعت مکمل ہونے پر کارروائی کو کل 10 بجے تک کے لیے ملتوی کردیا اور وکلا کو مزید تیاری کی ہدایت کردی۔

قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 27 دسمبر 2019 کو لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے موسم سرما کی تعطیلات کی وجہ سے فل بینچ کی موجودگی نہ ہونے پر ان درخواستوں کو واپس کردیا تھا۔

بعد ازاں خواجہ احمد طارق رحیم اور اظہر صدیق نے بدھ کو دوبارہ درخواستیں جمع کروائیں۔

واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد شمیم خان نے حال ہی میں 3ججز پر مشتمل فل بینچ بنایا تھا اور 9 جنوری کو مرکزی درخواست پر سماعت کی تاریخ مقرر کی تھی۔

پرویز مشرف کی درخواست

خیال رہے کہ 27 دسمبر 2019 کو پرویز مشرف کی جانب سے ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے لاہور ہائی کورٹ میں 86 صفحات پر مشتمل درخواست دائر کی تھی جس میں وفاقی حکومت اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

عدالت عالیہ میں دائر اس درخواست میں نشاندہی کی گئی تھی کہ ’فیصلے میں غیر معمولی اور متضاد بیانات کا مرکب موجود ہے‘۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ خصوصی عدالت نے ’عجلت میں ٹرائل کو مکمل کیا جو کسی نتیجے تک نہیں پہنچا تھا‘۔

پرویز مشرف کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’خصوصی عدالت نے کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 342 کے تحت ملزم کا بیان ریکارڈ کیے بغیر سزائے موت سنائی‘۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ ’مجرمانہ ٹرائل میں ملزم کا بیان ریکارڈ کرنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اس میں کوئی غفلت، ناکامی اور بھول چُوک پروسیکیوشن کے کیس کو بری طرح متاثر کرتی ہے‘، اس کے علاوہ ’مجرمانہ ٹرائل اس لازمی قانونی شرط پر عمل کیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا‘۔

ساتھ ہی درخواست میں سنگین غداری کیس کے تفصیلی فیصلے کے پیراگراف نمبر 66 کو بھی چیلنج کیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ’ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور/مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ وفات پاجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے‘۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف سے متعلق فیصلہ: 'افواج میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے'

درخواست میں کہا گیا تھا کہ خصوصی عدالت کے متعلقہ معزز صدر (جج) نے پیرا 66 کے ذریعے سنگدلی، غیر قانونی طریقے، غیر حقیقی طور پر کمزور کرنے والی، ذلت آمیز، غیر معمولی اور وقار کے خلاف ایک شخص کو سزا دے کر تمام مذہبی اخلاقی، سول اور آئینی حدود پار کیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ، خصوصی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا پر فوری عمل درآمد روکنے کا حکم دے اور سزا کو کالعدم قرار دے۔

سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کا فیصلہ

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔

جس کے بعد 19 دسمبر کو اس کیس کا 167 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جس میں جسٹس نذر اکبر کا 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل تھا۔

عدالت کا تفصیلی فیصلہ جسٹس وقار سیٹھ نے تحریر کیا تھا اور اس میں ان کے ساتھ جسٹس شاہد کریم نے معاونت کی تھی۔

تاہم جسٹس شاہد کریم نے سزا سے اتفاق کیا لیکن انہوں نے فیصلے میں شامل پیراگراف 66 سے اختلاف کیا، جس میں مشرف کے سزا سے پہلے وفات پانے کی صورت میں 'ڈی چوک پر گھسیٹ کر لانے اور 3 دن تک لٹکانے' کا ذکر کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کب کیا ہوا؟

علاوہ ازیں 17 دسمبر کو دیے گئے مختصر عدالتی فیصلے پر سابق صدر کا ردعمل سامنے آیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ ان کے خلاف کچھ لوگوں کی ذاتی عداوت کی وجہ سے کیس بنایا اور سنا گیا جس میں فرد واحد کو ٹارگٹ کیا گیا۔

عدالت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پرویز مشرف نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'خصوصی عدالت نے میرے خلاف آرٹیکل 6 کا جو فیصلہ سنایا وہ میں نے ٹی وی پر پہلی بار سنا، یہ ایسا فیصلہ ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی کہ مدعا علیہ اور نہ اس کے وکیل کو اپنے دفاع میں بات کرنے کی اجازت نہیں ملی۔'

واضح رہے کہ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 3 نومبر، 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے 1973 کے آئین کو معطل کردیا تھا جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدالت کے 61 ججز فارغ ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں