سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف درخواست پر سماعت

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2020
رجسٹرار کے دفتر کو انصاف تک رسائی کے لیے گیٹ کیپر کے طور پر کام نہ کرنے دیا جائے، درخواستگزار — اے پی پی:فائل فوٹو
رجسٹرار کے دفتر کو انصاف تک رسائی کے لیے گیٹ کیپر کے طور پر کام نہ کرنے دیا جائے، درخواستگزار — اے پی پی:فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف مس کنڈکٹ کے حوالے سے دائر کردہ پٹیشن کی واپسی کو چیلنج کرنے والی درخواست پر اپنے حکم کو عارضی طور پر روک دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رجسٹرار آفس کی جانب سے پٹیشن سماعت کے لیے منظور نہ کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے کی۔

سول سائٹی کے متعدد اراکین جن میں عافیہ شہربانو ضیا، افراسیاب خٹک، ایم ضیاالدین، فرحت اللہ بابر، نگہت سعید خان، فریدہ شاہد، روبینہ سہگل اور بشریٰ گوہر شامل ہیں، کی جانب سے ایڈووکیٹ حنا جیلانی سماعت میں پیش ہوئیں۔

درخواستگزاروں کا ماننا ہے کہ انصاف کے معیار کے تحت عدلیہ کے احتساب کے نظام کی یقین دہانی میں قانونی مفاد ہے جس میں کوئی عدلیہ کی ساکھ پر سوالات نہ اٹھ سکیں'۔

مزید پڑھیں: میں نے ملک میں حقیقی جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد رکھی، چیف جسٹس

چیمبر میں سماعت کے بعد حنا جیلانی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال نے اپیل پر موقف سنا جس میں انہوں نے رجسٹرار کے دفتر سے انصاف تک رسائی کے لیے گیٹ کیپر کے طور پر کام نہ کرنے کا کہا ہے۔

درخواستگزاروں نے درخواست کے ذریعے عدالت سے یہ بھی التجا کی عدالت ہی بتائے کہ جس جج کا کونسا رویہ مس کنڈکٹ کی وضاحت پر پورا اترتا ہے، اس سے ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ مضبوط ہوگا اور ججز کے احتساب میں تمام رکاوٹیں ہٹ جائیں گی۔

درخواست میں سپریم کورٹ سے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی صوابدید کو تشکیل دینے کے لیے ہدایات جاری کرنے کا کہا گیا جس کے ذریعے اعلیٰ ججز کا احتساب کیا جاتا ہے اور اس میں کونسل کی مختلف شکایات/ریفرنسز، شکایات کی سنائی میں ترجیحات کی صوابدید بیان کی جانی چاہیے اور یقین دہانی کی جانی چاہیے کہ ایس جے سی کی تحقیقات عوام کے سامنے آئیں۔

درخواست میں سپریم کورٹ سے سپریم جوڈیشل کونسل کے پروسیجر آف انکوائری 2005 میں ترمیم کی ہدایات بھی جاری کرنے کا کہا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق چیف جسٹس نے دہری شہریت سے متعلق خبروں کی تردید کردی

واضح رہے کہ 10 اکتوبر 2018 کو درخواستگزاروں سمیت 98 شہریوں نے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت، ،مبینہ طور پر ججز کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے پر شکایت/ریفرنس دائر کیا تھا۔

گزشتہ درخواست میں التجا کی گئی تھی درخواست گزاروں کو ریفرنس کی حیثیت کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی مگر جن جج کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا تھا وہ 17 جنوری 2019 کو ریٹائر ہوگئے تھے۔

اسی طرح 9 مئی 2019 کے وومنز ایکشن فورم کے بینر تلے لکھے گئے خط میں درخواست گزاروں نے رجسٹرار سے ریفرنس کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا تھا۔

واضح رہے کہ اس فورم میں چند درخواست گزار بھی رکن ہیں۔

جواب میں رجسٹرار کے دفتر نے درخواست گزاروں کو بتایا تھا کہ ان کا ریفرنس خارج 8 مارچ 2019 کو کونسل کے فیصلے کے تحت خارج کردیا گیا ہے۔

جواب میں سپریم جوڈیشل کونسل پروسیجر آف انکوائری 2005 کے رول 13 کے تحت لکھا گیا تھا کہ کونسل کی کارروائی ان کیمرہ تھی اور وہ عوام کے سامنے نہیں لائی جاسکتی۔

جواب سے مطمئن نہ ہوکر درخواست گزاروں 4 جون کو ایک اور خط لکھا تھا جس میں سوال کیا گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جب جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بارے میں معلومات رکھتی تھی تو اس نے ان کی ریٹائرمنٹ سے 3 ماہ قبل ریفرنس کو نظر انداز کیوں کیا تھا اور پھر ان کی ریٹائرمنٹ کے 2 ماہ بعد شکایات کو درج کیا گیا تھا۔

درخواست گزار نے سپریم جوڈیشل کونسل کے 8 مارچ کے آرڈر کے نفاذ پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ کس طرح استثنیٰ کی اب بھی اجازت دی جاتی ہے، اگر مس کنڈکٹ کے الزامات کو مختلف طریقے سے دیکھا جانا ہے تو اس سے جج کے ریٹائرمنٹ سے قبل کونسل کی معاملے اٹھانے میں ناکامی ظاہر ہوتی ہے۔

درخواست گزاروں نے اپنے خط میں کہا تھا کہ یہ غیر منصفانہ اور عوامی مفاد کے خلاف ہے کہ اگر مس کنڈکٹ کی تحقیقات میں سابق چیف جسٹس کو عوامی خزانے سے مراعات کا حق دار نہیں بتایا گیا اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان اپنے سابق عہدے کے مراعات حاصل کرتے رہیں۔

درخواست میں سپریم کورٹ کے سامنے استدعا کی گئی ہے کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے اس ریفرنس کی باقاعدگی سے جانچ پڑتال کرنے اور بدانتظامی کے الزامات پر رائے پیش کرے۔

درخواست میں عدالت عظمیٰ سے سپریم جوڈیشل کونسل کے 8 مارچ کے فیصلے کو معطل کرنے اور ریفرنس کو کونسل میں زیر التوا ظاہر کرے جسے بعد اٹھایا جائے گا اور آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت فیصلہ کیا جائے گا۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ ریفرنسز/شکایات پر کونسل ترجیحات کا فیصلہ خود سے نہیں کرسکتی اور نہ قواعد کو دیکھے بغیر اسے خفیہ رکھنے کی ضرورت کا فیصلہ کرسکتی ہے۔

درخواست گزاروں نے ایس جے سی کے 8 مارچ کے آرڈر کے مضمرات پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور یہ کہ کس طرح بدعنوانی کے الزامات کو جج کی ریٹائرمنٹ سے قبل کونسل کی طرف سے معاملہ اٹھانے میں ناکامی کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں