غداری کیس کیخلاف درخواست: وفاقی حکومت سے خصوصی عدالت کی تشکیل کی سمری طلب

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2020
خصوصی عدالت نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی — فائل فوٹو:اے ایف پی
خصوصی عدالت نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی — فائل فوٹو:اے ایف پی

لاہور ہائیکورٹ نے سنگین غداری کیس کے فیصلے کے خلاف سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سماعت پر درخواست کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے سنگین غداری کیس کی سمری طلب کرلی۔

جسٹس مظاہر علی نقوی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے لاہور ہائی کورٹ میں پرویز مشرف کی درخواستوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد لازم تھا کہ آرٹیکل 6 آنے کے بعد 1973 اور 1976 کے سنگین غداری قوانین میں ترامیم کی جاتی۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 6 نیا جرم تو شامل ہوا مگر اس میں سزا کا طریقہ کار طے نہیں کیا گیا، ایسا ممکن نہیں کہ 18 ویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 6 کے تحت خود بخود سزا ہو جائے۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی عدالت وفاقی حکومت کی مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بعد غداری کی کارروائی کر سکتی ہے، یہاں وفاقی حکومت نے قانون کی پاسداری نہیں کی۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وفاقی حکومت نے خصوصی عدالت تو بنا دی اور فوجداری کیس کیسے چلے گا اس کا طریقہ کار طے ہی نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں مدعی پر کوئی جرح نہیں کی گئی، اس وقت کے وزیراعظم نے عدالت بنانے کے بعد انکوائری کا حکم دیا اور کیس آنے کے پہلے دن ہی خصوصی عدالت نے فرد جرم عائد کر دی۔

جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ 2007 میں ایمرجنسی لگی اور یہ کہتے ہیں کہ آئین معطل ہوا، 2009 میں فیصلہ آیا جس میں 2007 کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا گیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ایڈووکیٹ علی ظفر سے استفسار کیا کہ 2007 سے خاموشی تھی اور 2013 سے پھر یہ کیس آجاتا ہے۔

اس پر ایڈووکیٹ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ پرویز مشرف نے آئین معطل کیا۔

سماعت کے دوران بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 6 کے ساتھ تعلق نہیں بتایا مگر اسے غیر آئینی اقدام قرار دیا، جو کیس بنایا گیا وہ قانون کے مطابق نہیں بنا اور نہ عدالت کی تشکیل قانون کے مطابق تھی۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 21 جون 2013 کو اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کو سمری بھیجی کہ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کا کیس بنایا جائے اور سیکریٹری داخلہ کو 29 دسمبر 2013 کو شکایت درج کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خصوصی عدالت نے فیصلہ کن بنیادوں پر دیا ہم اسے نہیں دیکھ سکتے، لاہور ہائیکورٹ

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 6 کے تحت کابینہ کی منظوری کے بغیر کیس نہیں بن سکتا یہ اختیار وزیراعظم کے پاس نہیں تھا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب بھی کوئی قانون کیس بنانے کا تقاضا کرے گا تو اس کا مطلب ہو گا کہ وفاقی کابینہ فیصلہ کرے گی۔

جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ مجاز اتھارٹی کو کیس دائر کرنے کی منظوری کون دے گا؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کل ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے کہا تھا کہ کابینہ کی منظوری نہیں لی گئی اس طرح تو اس کیس کی بنیاد ہی موجود نہیں۔

دورانِ سماعت جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا کابینہ کے اجلاس میں ایجنڈا میں شامل تھا ؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ اس حوالے سے کابینہ کا کوئی بھی اجلاس نہیں ہوا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ سے اٹارنی جنرل کے بتائے ہوئے دستاویزات کے علاوہ کوئی دستاویز موجود نہیں ہے۔

اس پر عدالتی بینچ نے استفسار کیا کہ یہ تاریخ میں اہم ترین معاملہ تھا کیا ایجنڈا آئٹم کے بغیر کیا کابینہ ایسے معاملے کو دیکھ سکتی ہے؟

عدالتی بینچ میں شامل جسٹس امیر بھٹی نے ریمارکس دیے کہ آرمی چیف کے معاملے پر دیکھ لیں کابینہ کا ذکر ہوا کہ کابینہ میں 11 لوگ تھے یا 13 لوگ تھے لیکن پرویز مشرف کیس میں تو کوئی کابینہ کی منظوری یا اسکا کردار نظر نہیں آ رہا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کابینہ سے منظوری کا کوئی ریکارڈ حکومت کے پاس ہے؟ جس پر وزارت داخلہ کے نمائندے سے عدالت میں بیان دیا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے حوالے سے کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: 'پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ تہذیب اور اقدار سے بالاتر ہے'

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر عدالت کی تشکیل ہی غلط اور غیر قانونی ہے تو اس کے فیصلے سمیت تمام اقدام غیر قانونی تصور ہوں گے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل میں جو ججز لگائے گئے وہ کن بنیادوں پر لگائے گئے؟ خصوصی عدالت میں ججز لگانے کے لیے کوئی تحریری بات چیت بھی ہوئی یا سب کچھ ٹیلی فون پر ہی ہوا؟

جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ وزارت قانون و انصاف نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے ججز کے نام دیے جائیں۔

اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف شکایت مجاز اتھارٹی نے دائر نہیں کی یہاں بھی قانون کی خلاف ورزی ہوئی، قانون کے مطابق کابینہ نے مجاز اتھارٹی کو نامزد کرنا تھا کہ وہ شکایت درج کروائے۔

بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں ٹرائل کیسے ہو سکتا ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ملزم کی عدم موجودگی میں ٹرائل مکمل کر کے فیصلہ نہیں سنایا جاسکتا۔

اس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی شخص ٹرائل میں پیش نہیں ہورہا تو عدالت زیادہ سے زیادہ اسے اشتہاری قرار دے سکتی ہے۔

عدالتی بینچ نے استفسار کیا کہ پرویز مشرف کے علاوہ کتنے لوگ ہیں جو باہر بیٹھے ہیں ان کے خلاف بھی ایسے کبھی ٹرائل ہوا؟ جس پر عدالتی معاون نے کہا کہ سیکشن 9 کے تحت ملزم کی عدم موجودگی میں ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ کسی کو سنے بغیر سزا دینا کہاں کا قانون ہے؟ اگر کوئی 342 کا بیان نہیں دے رہا تو ضروری ہے کہ اس سے منگوالیا جائے۔

اپنے ریمارکس میں جسٹس مظاہر علی نقوی نے مزید کہا کہ ہم ٹرائل کورٹ کے نتائج پر نہیں جارہے، فیصلے کو دیکھیں تو اس وقت جس، جس نے ساتھ دیا وہ سب اعانت کے ملزم بن جاتے ہیں۔

اس پر عدالتی معاون نے کہا کہ اس وقت وزیراعظم نے اکیلے ہی کیس شروع کرنے کا فیصلہ کیا جو قانون کے منافی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 6 کا جرم کوئی اکیلا نہیں کر سکتا، اگر مخصوص لوگوں کے خلاف کاروائی ہو یہ آئین کے خلاف ہوگا۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے کہ جو فرد جرم عائد ہوئی اس میں تو آرٹیکل 6 کا ذکر ہی نہیں ہے

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف سے متعلق فیصلہ: 'افواج میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے'

عدالتی بینچ میں شامل جسٹس مسعود جہانگیر نے استفسار کیا کہ جب وفاقی حکومت دیگر کو ملزم نہیں بناتی تو خصوصی عدالت دیگر ملزموں کو بلوا سکتی ہے؟ اس پر بیرسٹر علی نے کہا کہ خصوصی عدالت کو دیگر ملزمان کو طلب کرنے کا اختیار نہیں تھا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ غداری ایک شخص نہیں کرسکتا یہ جرم مجموعی طور پر لیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ رشوت والے قانون کی طرح لیا جاسکتا ہے کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں قصور وار ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ 3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف کا اقدام کیا تھا، جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ سابق صدر نے 3 نومبر کو ایمرجنسی نافذ کی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ میں پرویز مشرف کے وکلا اور عدالتی معاون کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل کو پیر (13 جنوری) کو دلائل دینے کا حکم دے دیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے خصوصی عدالت کی تشکیل سے متعلق سمری طلب کرلی۔

سنگین غداری کیس کا فیصلہ

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔

جس کے بعد 19 دسمبر کو اس کیس کا 167 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جس میں جسٹس نذر اکبر کا 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل تھا۔

بعدازاں 27 دسمبر کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں متفرق درخواست کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں