پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل غیر آئینی قرار

اپ ڈیٹ 13 جنوری 2020
خصوصی عدالت نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنایا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
خصوصی عدالت نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنایا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دے دیا۔

پرویز مشرف کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دیا اور کہا کہ سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کیس بھی قانون کے مطابق نہیں بنایا گیا۔

جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد امیر بھٹی اور جسٹس چوہدری مسعود جہانگیر پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پرویز مشرف کی درخواست پر متفقہ طور پر فیصلہ سنایا۔

وفاقی حکومت اور پرویز مشرف دونوں کے وکلا کے مطابق خصوصی عدالت کی تشکیل غیر قانونی قرار دینے کے بعد سزائے موت کا فیصلہ بھی کالعدم تصور ہوگا۔

پرویز مشرف کی درخواست پر دلائل

قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پرویز مشرف کی درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) اشتیاق اے خان پیش ہوئے اور وفاقی حکومت کی جانب سے خصوصی عدالت کی تشکیل سے متعلق سمری اور ریکارڈ پیش کیا۔

مزید پڑھیں: غداری کیس کیخلاف درخواست: وفاقی حکومت سے خصوصی عدالت کی تشکیل کی سمری طلب

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس بنانے کا معاملہ کبھی کابینہ ایجنڈے کے طور پر پیش نہیں ہوا۔

جس پر جسٹس مسعود جہانگیر نے استفسار کیا کہ کابینہ کا اجلاس کس تاریخ کو ہوا تھا؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ اجلاس 24 جون 2013 کو ہوا تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے ججز کے تقرر کے معاملے پر دوبارہ کابینہ کا اجلاس ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ سچ ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس سننے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کابینہ کی منظوری کے بغیر ہوئی‘۔

اشتیاق اے خان کے مطابق 8 مئی 2018 کو خصوصی عدالت کے ایک جج کے تقرر کا معاملہ کابینہ میں زیر بحث آیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ 21 اکتوبر 2018 کو جسٹس یاور علی ریٹائر ہوئے تھے اور خصوصی عدالت پھر ٹوٹ گئی تھی۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے کہ جسٹس شاہد کریم کو خصوصی عدالت کا رکن بنانے کے لیے نام وزارت قانون و انصاف نے تجویز کیا، اس سے قبل کبھی بھی وزارت قانون و انصاف نے نام تجویز نہیں کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خصوصی عدالت نے فیصلہ کن بنیادوں پر دیا ہم اسے نہیں دیکھ سکتے، لاہور ہائیکورٹ

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا خصوصی عدالت کی تشکیل کا معاملہ کابینہ کے اجلاسوں میں زیرِ غور آیا تھا؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسا نہیں ہوا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’آپ (وفاقی حکومت) کے ریکارڈ کے مطابق عدالت کی تشکیل اور شکایت درج کرنے کا نہ کوئی ایجنڈا ہے اور نہ ہی کوئی نوٹیفیکیشن موجود ہے‘۔

جسٹس مسعود جہانگیر نے ریمارکس دیے کہ یعنی سب کچھ 2 دن میں ہوا، اس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ یہ تو لگتا ہے سب کچھ واٹس ایپ پر ہوا۔

دوران سماعت عدالتی بینچ نے ایمرجنسی کے نفاذ سے متعلق بھی استفسار کیا اس دوران جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے کہ ایمرجنسی تو آئین میں شامل ہے۔

اپنے ریمارکس میں جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ اگر ایسی صورتحال ہو جائے کہ حکومت ایمرجنسی لگا دے تو کیا اس حکومت کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ چلے گا؟

جسٹس امیر بھٹی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 232 کے تحت ایمرجنسی لگائی جاسکتی ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے تحت ایسا کیا جا سکتا ہے۔

اس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے استفسار کیا کہ تو پھر آئین سے انحراف کیسے ہو گیا؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 6 میں معطلی، اعانت اور معطل رکھنے کے الفاظ شامل کیے گئے تھے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ترمیم کے بعد کسی ملزم کو ماضی سے جرم کی سزا دی جا سکتی ہے؟ جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نئی قانون سازی کے بعد جرم کی سزا ماضی سے نہیں دی جا سکتی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے 3 لفظ شامل کر کے پورے آئین کی حیثیت کو بدل دیا۔

مزید پڑھیں: خصوصی عدالت نے فیصلہ کن بنیادوں پر دیا ہم اسے نہیں دیکھ سکتے، لاہور ہائیکورٹ

جسٹس مظاہر علی نقوی نے استفسار کیا کہ پرویز مشرف کے خلاف انکوائری کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ٹیم کتنے اراکین پر مشتمل تھی؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 20 سے 25 افراد پر مشتمل ٹیم تشکیل دی گئی تھی جس نے انکوائری مکمل کی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ان میں سے کتنے افراد ٹرائل میں پیش ہوئے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان میں سے صرف ایک شخص خصوصی عدالت کے سامنے ٹرائل میں پیش ہوا۔

اس سے قبل 10 جنوری کو ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے سنگین غداری کیس کی تشکیل سے متعلق سمری طلب کی تھی اور وفاقی حکومت کے وکیل کو دلائل دینے کا حکم دیا تھا۔

سنگین غداری کیس کا فیصلہ

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔

جس کے بعد 19 دسمبر کو اس کیس کا 167 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جس میں جسٹس نذر اکبر کا 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل تھا۔

بعدازاں 27 دسمبر کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں متفرق درخواست کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں