قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کراچی کے اندر اختلافات کی گونج

اپ ڈیٹ 16 جنوری 2020
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران تحریک انصاف کے 3 رکن اسمبلی نے وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی کے خلاف احتجاج کیا — فائل فوٹو: اے پی پی
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران تحریک انصاف کے 3 رکن اسمبلی نے وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی کے خلاف احتجاج کیا — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جہاں اپنے اتحادیوں کو منانے میں مصروف ہے وہیں جماعت میں اندرونی اختلافات کی گونج قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی سنی گئی۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کراچی سے منتخب تحریک انصاف کے 3 اراکن قومی اسمبلی نے کراچی ہی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی کے خلاف احتجاج کیا۔

کراچی پورٹ کو پارٹ قاسم سے جوڑنے والے 45 کلومیٹر کے پل کی تعمیر میں تاخیر کے حوالے سے ان کے توجہ دلاؤ نوٹس پر وفاقی وزیر کے رد عمل پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے تینوں اراکین اسمبلی، وفاقی وزیر کی نشست کے پاس گئے اور احتجاج کیا اور انہیں اجلاس سے واک آؤٹ کرنے کی دھمکی بھی دی۔

مزید پڑھیں: سندھ کی تقسیم ہمارے منشور میں شامل نہیں، عمران اسمٰعیل

اراکین کے اسمبلی میں اس معاملے کو لانے کے اقدام کو دیکھتے ہوئے پہلے تو علی زیدی نے حیرانی کا اظہار کیا اور بعد ازاں ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان تینوں اراکین نے انتخابات لڑنے کے لیے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے ان سے مدد طلب کی تھی۔

پی ٹی آئی میں اختلافات ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب تحریک انصاف سندھ میں دھڑے بندی کے حوالے سے رپورٹس گردش کر رہی ہیں اور حکمراں جماعت متحدہ قومی موومنٹ، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ ان کی تشویش پر مذاکرات کر رہی ہے۔

فہیم خانن، عطا اللہ اور محمد اکرم چیمہ کی جانب سے پیش کیے گئے توجہ دلاؤ نوٹس پر رد عمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے ریمارکس دیے کہ 'یہ اراکین ان سے معاملے پر ذاتی حیثیت میں بھی بات کرسکتے تھے اور میں انہیں مطمئن کردیتا تاہم جب وہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے کر آئے ہیں تو میں اس پر ایوان میں ہی رد عمل دینا چاہوں گا'۔

اراکین اسمبلی نے علی زیدی کے رد عمل پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور محمد اکرم چیمہ نے وزیر سے سوال کیا کہ امور کو ایڈ ہاک کی بنیاد پر نہ چلائیں اور اسپیکر اسد قیصر نے علی زیدی کو ان تینوں اراکین سے رابطہ قائم کرنے کی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت، ایم کیو ایم وفود کی 'ملاقات': خالد مقبول وزارت چھوڑنے کے فیصلے پر قائم

اسپیکر کی ہدایت کے بعد علی زیدی نے کہا کہ 'اراکین اسمبلی مجھ سے خود بھی رابطہ کرسکتے تھے تاہم انہوں نے ایوان میں اس پر بات کرنے کا فیصلہ کیا، میں نے اپنا فون نمبر تبدیل نہیں کیا، میرا اب بھی وہی نمبر ہے جس پر وہ فون کرکے مجھ سے پارٹی ٹکٹ کی درخواست کیا کرتے تھے'۔

ان کے اس جواب پر تینوں راکین اسمبلی اٹھ کھڑے ہوئے اور علی زیدی کی نسشت کے سامنے جاکر ان کے ریمارکس پر احتجاج کیا اور کہا کہ 'ہمیں پارٹی ٹکٹ خیرات میں نہیں دی گئی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم علی زیدی کو بولنے نہیں دیں گے اگر وہ اس طرح ہم پر تنقید کریں گے تو'۔

حکومتی بینچز کے چند اراکین نے احتجاجی اراکین کو منانے کی کوشش کی اور واک آؤٹ کرنے سے روکا۔

قبل ازیں توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے اسمبلی کو بتایا تھا کہ کراچی کے ٹرانسپورٹ کے مسائل سے نمٹنے کے لیے تفصیلی جائزہ لیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی نے ناراض مسلم لیگ (ق) کو راضی کرلیا

ان کا کہنا تھا کہ بحری شعبے کو بہتر بنانے کے لیے قائم کی گئی بحری مشاورتی کونسل کے اراکین بغیر کسی مالی فائدے کے کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت منصوبے کے آغاز کے لیے وزارت دفاع اور دیگر متعلقہ محکموں کے گرین سگنل کا انتظار کر رہی ہے کیونکہ اس کی جگہ سمندر میں سرحد کے نزدیک ہے۔

رکن قومی اسمبلی عطا اللہ نے جنوبی کراچی جہاں پورٹ قائم ہے، میں بنیادی سہولیات کے فقدان پر وزیر کی توجہ دلائی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ کے پی ٹی ہسپتال کی حالت نہایت بری ہے، مچھر کالونی اور شیر شاہ سمیت کئی آبادیوں کے مقامی افراد کو پینے کا پانی تک میسر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے لیے اربوں روپے کا ریونیو اکٹھا کرنے کے باوجود وہاں کی عوام کو بنیادی سہولیات تک نہیں دی جارہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب اور وفاق میں اتحاد کے مستقبل کے لیے ق لیگ، پی ٹی آئی کی بیٹھک

تاہم وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مچھر کالونی اور سکندر آباد میں مسائل انکروچمنٹ کی وجہ سے ہیں۔

قبل ازیں سوال و جواب کے دورانیے میں راجن پور سے ایک اور تحریک انصاف کی رکن قومی قومی اسمبلی سردار ریاض مزاری نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے حلقے کے 21 افراد کو پاکستان ریلویز میں بغیر میرٹ کے ڈیڑھ لاکھ روپے دینے پر روزگار دیا گیا ہے۔

پارلیمنٹ سیکریٹری برائے ریلویز فرح حبیب کا کہنا تھا کہ رکن اسمبلی نے سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں اور وہ اس معاملے کو دیکھیں گے اور اس کام میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔

بعد ازاں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی عالیہ کامران نے بلوچستان میں حالیہ ٹھنڈ کی لہر اور شدید برف باری کے بعد ابتر صورتحال پر بات کی۔

یہ بھی پڑھیں: اختر مینگل کی حکومت سے اتحاد ختم کرنے کی دھمکی

انہوں نے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ این ڈی ایم اے کو ہیلی کاپٹر کو ایئر ایمبولینس کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پھنسے ہوئے افراد کو نکالنے کا کام کرنا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے موسم سے متعلق حادثات کے بعد آزاد کشمیر کا دورہ کیا ہے تاہم انہوں نے بلوچستان کا دورہ نہیں کیا جیسے وہ پاکستان کا حصہ ہی نہیں۔

ان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو آزاد جموں و کشمیر سمیت بلوچستان میں بارش اور برف باری سے متاثرہ افراد کو معاوضے کی ادائیگی کے لیے درخواست دے دی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں