جیل اصلاحات، بیمار قیدیوں سے متعلق کمیشن رپورٹ عدالت میں پیش

اپ ڈیٹ 18 جنوری 2020
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کے کام کی تعریف کی— فائل فوٹو: رائٹرز
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کے کام کی تعریف کی— فائل فوٹو: رائٹرز

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے جیل اصلاحات اور بیمار قیدیوں کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کمیشن کی رپورٹ پیش کردی۔

شیریں مزاری نے عدالت میں حاضر ہو کر ازخود جیل ریفارمز کمیشن رپورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ کو پیش کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جیل اصلاحات اور بیمار قیدیوں کے حوالے سے سماعت کے دوران شیریں مزاری پیش ہوئیں تو عدالت نے استفسار کیا کہ ہم نے تو آپ کو نہیں بلایا تھا۔

مزیدپڑھیں: کیمپ جیل میں 3500 قیدیوں کیلئے صرف ایک ڈاکٹر ہے، جیل حکام

جس پر وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ میں خود آئی ہوں اور عدالت کے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ پیش کرنا چاہتی ہوں۔

دوران سماعت شیری مزاری نے بتایا کہ 'حکومت نے بیرسٹر فروغ نسیم اور علی ظفر پر مشتمل جیل ریفارمز کمیٹی بنائی تھی اور ہم نے جیل میں قیدیوں کے ساتھ خواجہ سرا کے لیے بھی الگ سیل بنانے کا پلان دیا ہے۔

علاوہ ازیں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کے کام کی تعریف کرتے ہوئے ریمارکس کہ 'عدالت آپ کے کام کو سراہتی ہے'۔

علاوہ ازیں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گرفتاری کا اختیار لامحدود استعمال ہورہا ہے اور سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ گرفتاری کے اختیار کو آپ غلط استعمال نہیں کرسکتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے، سزا یافتہ قیدی اگر شدید بیمار ہو جائے اسے رہا کرے اور اسلام کا پورا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کو انسان کی طرح ٹریٹ کیا جائے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ فلسفہ ہے سو گناہ گاروں کو چھوڑ دو ایک بے گناہ کو سزا نہ ہونے دو، نیلنسن منڈیلا نے کہا تھا اگر کسی قوم کی گورننس اور حالات کا جائزہ لینا ہو تو جیلوں کی حالت دیکھ لیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے 57 فیصد زائد

اس دوران میڈیکل افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 249 ایسے قیدی جیل میں سامنے آئے ہیں جن کو فوری ہسپتال میں علاج کی ضرورت ہے۔

ریاست ان کے لاپتہ ہونے کی وجوہات بتائے، چیف جسٹس اطہر من اللہ

جیل میں قیدیوں کے حالت زار کیس کے دوران لاپتہ افراد کا موضوع بھی زیر بحث آیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ لاپتہ ہیں،ریاست ان کے لاپتہ ہونے کی وجوہات بتائے کہ وہ کیوں لاپتہ ہیں۔

اس پر شیری مزاری نے کہا کہ 'ہمارے ہاں 5-6 سال سے لوگ لاپتہ ہیں اور ان کے خاندان والے شدید اذیت میں ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ انگریز کے قانون سے زیادہ اسلامی شرعی لا اور فق میں حقوق واضح ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے جیل میں بچوں کے حوالے سے بھی کام کیا ہے؟۔

یہ بھی پڑھیں: گوانتاناموبے جیل میں پاکستانی کی قید غیر قانونی قرار

جس پر شیریں مزاری نے جواب دیا کہ ' بالکل، جیل میں بچوں اور خواتین سے زیادتی کے حوالے سے بھی رپورٹ میں لکھا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم تو بچوں سے زیادتی کے کیسز پر بھی آگاہی مہم چلا رہے ہیں۔

عدالت نے قیدیوں کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین طلب کرتے ہوئے سماعت 15 فروری تک ملتوی کر دی۔

جبری گمشدگیوں کے حوالے سے بل وزارت قانون کے پاس ہے، شیری مزاری

بعدازاں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیری مزاری کی اسلام اباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جیلوں میں قیدیوں کی سزا کے دوران کام کی اجرت دی جائے۔

انہوں نے کہ جیلوں میں قیدیوں کو کام کرنے پر اجرت کی ادائیگی سے رہائی پر وہ نئی زندگی شروع کر سکیں گئے۔

وفاقی وزیر نے اقرار کیا کہ خواجہ سرا اور بیماروں کے لیے جیلوں میں کوئی سہولت موجود نہیں ہیں۔

مزیدپڑھیں: ’جیل میں بند ہوجانے سے قیدی انسانی کنبے سے الگ نہیں ہوجاتا‘

انہوں نے کہا کہ 'آج ہم جیلوں میں موجود قیدیوں کے حوالے سے رپورٹ لے کر عدالت میں پیش ہوئے اور جیلوں میں قیدیوں کے حوالے سے تجاویز چیف جسٹس اطہر من اللہ کے سامنے پیش کر دی ہیں'۔

شیری مزاری نے امید ظاہر کی کہ انڈر ٹرائل قیدیوں کے حوالے سے اصلاحات ہونے سے بہتری آئے گئی اور جیل میں قیدیوں کی گنجائش سے زیادہ موجودگی کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے۔

شیری مزاری نے بتایا کہ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے بل وزارت قانون کے پاس ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جیلوں میں قیدیوں کو اپنے حقوق کا نہیں علم نہیں ہے

تبصرے (0) بند ہیں