افغانستان میں جنگ بندی کے امکانات موجود ہیں، عمران خان

اپ ڈیٹ 22 جنوری 2020
وزیراعظم نے پاکستان اسٹریٹجی ڈائیلاگ سے خطاب کیا—فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم نے پاکستان اسٹریٹجی ڈائیلاگ سے خطاب کیا—فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جب ان کی حکومت آئی تو پاکستان دنیا کے خطرناک ترین مقامات میں سے ایک تصور کیا جاتا تھا لیکن 'ہم نے امن کا ساتھی بننے کا فیصلہ کیا'، جس کے نتیجے میں پاکستان کو پہلا فائدہ سیاحت کے شعبے میں ہوا۔

سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم میں پاکستان اسٹریٹجی ڈائیلاگ سے خطاب میں ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے 2 تنازعات میں حصہ لیا جس میں 1980 کی دہائی میں افغان جہاد جبکہ 11 ستمبر 2001 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ تھی اور ان دونوں کی ہمیں بھاری قیمت چکانا پڑی۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جلد پاکستان کا دورہ کریں گے، شاہ محمود قریشی

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے تنازع میں سوویت یونین کی جانب سے افغانستان چھوڑنے کے بعد عسکریت پسند گروپ، فرقہ وارانہ گروپ، کلاشنکوف اور منشیات کا کلچر فروغ پایا، جس نے ہمارے معاشرے کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں 70 ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور خودکش دھماکوں کے باعث پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک تصور کیا جانے لگا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو ہم نے کچھ اہم فیصلے کیے کہ ہم صرف 'امن کے ساتھ شراکت داری کریں گے' اور ہم کسی تنازع کا حصہ نہیں بنیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں امن کے قیام کے بعد پہلا فائدہ سیاحت کے شعبے میں ہوا کیونکہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں بہت سے سیاحتی مقام ابھی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کئی قدیم ترین تہذیبوں کا مسکن ہے، جس میں انڈس ویلی سویلائزیشن ایک ہے، جو 5 ہزار سال پرانی ہے، اس کے علاوہ یہاں 4 مذاہب کے مقدس مقامات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کے سیاحت دوست ممالک میں سے ایک ہیں اور یہاں سیاحت کے وسیع مواقع ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیکریٹری خارجہ کی ایلس ویلز کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال سے آگاہی

وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ پاکستان میں سیاحت واپس آئی اور اسے 2020 میں دنیا کے بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست میں شامل کیا گیا، لہٰذا 'ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان سیاحت سے بہت زیادہ ریونیو اکٹھا کرسکتا ہے'۔

اپنی حکومت کے دیگر اقدامات کے بارے میں بتاتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ حکومت سرمایہ کاروں کو متاثر کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے اور صنعتوں کو مراعات فراہم کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سرمایہ کاروں کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور عالمی بینک کے کاروبار میں آسانیاں فراہم کرنے والے انڈیکس میں اولین ترین ممالک کی فہرست میں پاکستان شامل ہوا، تاہم اس میں مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا کیلئے پی آئی اے کی براہ راست پروازیں بحال ہونے کا امکان

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک سال کے عرصے میں غیرملکی سرمایہ کاری 200 فیصد سے زائد تک پہنچ گئی۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بات دوہراتے ہوئے کہ ہم دوبارہ تنازع میں نہیں جائیں گے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کے علاوہ اب ہم امریکیوں کے ساتھ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جنگ بندی کے امکانات موجود ہیں اور یہ ہمارے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس سے پاکستان کو وسطی ایشیا میں اقتصادی راہداری کھولنے میں مدد ملے گی۔

واضح رہے کہ عالمی اقتصادی فورم میں وزیراعظم کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت مختلف ممالک کے سربراہان موجود ہیں۔

قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) کی سائیڈ لائنز پر سنگاپور اور آذربائیجان کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی اور دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی: ڈیموکریٹس کی دستاویزات حاصل کرنے کی کوشش ناکام

دفتر خارجہ سے جاری ایک اعلامیے کے مطابق وزیراعظم عمران خان اور آذربائیجان کے صدر الہام علیوف سے ملاقات کی اور باہمی اعتماد اور حمایت سے بھرے ہوئے ہوئے دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔

بیان کے مطابق وزیراعظم نے جموں کشمیر کے اسلامی تعاون رابطہ گروپ کے رکن کی حیثیت سے شامل ہونے سمیت آذربائیجان کی قابل قدر شراکت داری کو سراہا، ساتھ ہی عمران خان نے ناگورنو-کراباخ کے معاملے آذربائیجان کے لیے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا۔

اس دوران عمران خان نے آذربائیجان کے صدر کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت بھارتی حکومت کی جانب خطے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے یکطرفہ اقدام کے بارے میں آگاہ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں