’ملزم کی غیر موجودگی میں ٹرائل انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے‘

اپ ڈیٹ 28 جنوری 2020
تفصیلی فیصلہ ہائی کورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے تحریر کیا —فائل فوٹو: اے ایف پی
تفصیلی فیصلہ ہائی کورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے تحریر کیا —فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ملزم کی غیر موجودگی میں مقدمے کی کارروائی کا تصور نہ صرف قرآن و سنت میں بیان کردہ اسلامی انصاف کے نظریے سے متصادم ہے بلکہ قدرتی انصاف کے سنہرے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عالیہ کے فل بینچ نے یہ بات پیر کو سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کے سزائے موت دینے کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے میں کہی۔

یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے 13 جنوری کو ایک مختصر فیصلے میں گزشتہ حکومت کی جانب سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف اٹھائے گئے ان تمام اقدامات کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا، جس میں سنگین غداری کے الزام میں دائر کردہ درخواست، خصوصی عدالت کی تشکیل اور اس کی کارروائی شامل ہے، نتیجتاً ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی سزائے موت بھی ختم ہوگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل غیر آئینی قرار

تفصیلی فیصلہ ہائی کورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے تحریر کیا جس میں سب سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست پر سماعت کے علاقائی دائرہ اختیار کو واضح کیا گیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے بینچ کے دیگر 2 اراکین میں جسٹس محمد امیر بھٹی اور جسٹس چوہدری مسعود جہانگیر شامل تھے۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق درخواست گزار (پرویز مشرف) کی جانب سے بحیثیت چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل ہیڈکوارٹرز راولپنڈی جاری کردہ عبوری آئین آرڈر نمبر1/2007 عدالت کے علاقائی دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

مزید پڑھیں: مدعی پہلے خود پیش ہو، سزائے موت کے خلاف مشرف کی اپیل پر سپریم کورٹ کا اعتراض

عدالت عالیہ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ’درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کرتے ہوئے بینچ کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ سیکریٹری داخلہ ’سنگین غداری‘ کے ملزم کے خلاف صرف وفاقی حکومت کی تجویز پر درخواست دائر کرنے کے مجاز تھے اور آئین کی دفعہ 90(1) کی روح کے مطابق وفاقی حکومت میں وزیراعظم اور کابینہ شامل ہیں تاہم آئین کی مطلوبہ شرط کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔

بینچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت کے چیف جسٹس اور پانچوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی مشاورت سے خصوصی عدالت کے قیام کا عمل بھی آئین کے لیے اجنبی تھا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ’یہ بات بغیر شک و شبے کے ثابت ہوتی ہے کہ خصوصی عدالت کی تشکیل سراسر غیر قانونی/نامناسب اور بغیر کسی دائرہ اختیار کے کی گئی'۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ مجرمانہ قانون کے ترمیمی (خصوصی عدالت) ایکٹ، 1976 کی دفعہ 9 میں دیا گیا اختیار اسلام کے احکامات سے متصادم اور آئین کی دفعہ 8 کی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق بنیادی حقوق سے مطابقت نہ رکھنے والا کوئی بھی قانون باطل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: خصوصی عدالت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی

خیال رہے کہ مجرمانہ قانون کے ترمیمی ایکٹ کی دفعہ 9 خصوصی عدالت کو ملزم کی غیر موجودگی میں ملزم کے دفاع کے لیے کوئی وکیل تعینات کرکے ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔

بینچ کا کہنا تھا کہ درخواست میں جو فعل بیان کیا گیا اور جو الزام عائد کیے گئے وہ آئین کی دفعہ 6 کا حصہ نہیں تھے بلکہ اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے آرٹیکل 6 میں شامل کیا گیا تھا، لہٰذا یہ آرٹیکل 6 کے تحت کسی کارروائی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔

سنگین غداری کیس کا فیصلہ

17 دسمبر کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس: کب کیا ہوا؟

جس کے بعد 19 دسمبر کو اس کیس کا 167 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جس میں جسٹس نذر اکبر کا 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل تھا۔

بعدازاں 27 دسمبر کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں متفرق درخواست کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں