اسرائیل کے پاسپورٹ پر سعودی عرب کا دورہ نہیں کیا جاسکتا، سعودی وزیرخارجہ

اپ ڈیٹ 28 جنوری 2020
فیصل بن فرحان السعود نے اسرائیل سے تعلقات پر اپنی پالیسی واضح کردی—فائل/فوٹو:اے ایف پی
فیصل بن فرحان السعود نے اسرائیل سے تعلقات پر اپنی پالیسی واضح کردی—فائل/فوٹو:اے ایف پی

سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل کا پاسپورٹ رکھنے والے افراد سعودی عرب میں داخل نہیں ہوسکتے۔

امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کو انٹرویو میں وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود کا کہنا تھا کہ ‘ہم فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے اور مسئلے کے حل کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے لیے بہت ضروری ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ مسئلہ ضرور حل ہونا چاہیے اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے ہونے والی ہر کوشش کی حمایت کریں گے’۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم (بیت المقدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘اس حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے کہ یہ مددگار نہیں ہے لیکن ضروری ہے کہ امن معاہدے کے لیے کوششیں کی جائیں’۔

مزید پڑھیں:اسرائیل نے اپنے شہریوں کو پہلی مرتبہ سعودی عرب جانے کی باضابطہ اجازت دیدی

انہوں نے کہا کہ ‘امن کے لیے کوششیں کی جائیں جس سے فلسطینیوں کو ان کے حقوق ملیں اور خطے میں پائیدار امن کو یقینی بنائیں’۔

سعودی وزیر خارجہ نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے اپنے شہریوں کو سعودی عرب کے سفر کی اجازت دینے کے حوالے سے کہا کہ ‘اس حوالے سے ہماری پالیسی وہی ہے، اسرائیل سے ہمارے تعلقات نہیں ہیں اور اسرائیل کا پاسپورٹ رکھنے والے اس وقت سعودی عرب کا دورہ نہیں کر سکتے’۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے شہریوں کو سعودی عرب میں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔

فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ ‘جب فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ ہوگا تو پھر خطے میں اسرائیل کے انضمام کے پیش نظر معاملہ ٹیبل پر ہو سکتا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘عرب امن معاہدے کے حوالے سے ہماری تجویز میں یہ شامل ہے کہ جب مکمل امن ہوگا تو اسرائیلی ریاست کے معاملات معمول پر ہوں گے’۔

یاد رہے کہ اسرائیل کی حکومت نے گزشتہ روز اپنے شہریوں کو پہلی مرتبہ سعودی عرب جانے کی اجازت دینے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ نے امن معاہدہ پیش کیا تو اوسلو معاہدے سے دستبردار ہوجائیں، فلسطین

اسرائیل کے وزیر داخلہ آریائی دیری نے ملک کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت کے بعد جاری بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل کے شہریوں کو دو صورتوں میں سعودی عرب جانے کی اجازت ہو گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیلی شہری مذہبی امور یعنی عمرے یا حج کی ادائیگی یا پھر کاروباری وجوہات یا سرمایہ کاری کی غرض سے 90 دن کے لیے سعودی عرب کا دورہ کر سکیں گے۔

اسرائیلی وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ کاروبار کے لیے سعودی عرب کا سفر کرنے والوں کو ریاض میں داخل ہونے کے لیے تمام انتظامات خود کرنے ہوں گے اور یہ ضروری ہے کہ انہیں اس کے لیے سعودی سرکاری اداروں سے دعوت نامہ موصول ہو۔

بیان کے مطابق اسرائیل کی جانب سے اجازت کے باوجود مسافروں کو سفر کے لیے سعودی عرب کی اجازت لازمی درکار ہو گی۔

اجازت ملنے سے قبل عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے اکثر افراد سعودی عرب جاتے تو تھے لیکن اسرائیل نے اپنے ملک کے یہودیوں اور مسلمانوں دونوں کو باقاعدہ سعودی جانے کی اجازت کبھی نہیں دی۔

مزید پڑھیں:فلسطین نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر اسرائیل، امریکا کو خبردار کردیا

اسرائیل کے عوام کو سعودی عرب جانے کے لیے کسی تیسرے ملک خصوصاً اردن سے سفر کرنا پڑتا ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیل کے ساتھ اردن، مصر اور ترکی کے علاوہ دیگر مسلم ممالک کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

اسرائیل کے اردن اور مصر سے امن معاہدے ہیں لیکن فلسطین پر ناجائز قبضے کے سبب ان کے مسلم دنیا کے خصوصاً عرب ممالک کے ساتھ اس طرح کے معاہدے نہیں ہو سکے۔

سعودی وزیر خارجہ کے اس تردیدی بیان سے قبل یہ خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہتری آرہی ہے اور اسرائیل کے اس فیصلے کو اسی نظر سے دیکھا جارہا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں