کورونا وائرس کی ہنگامی صورتحال کے تعین کیلئے عالمی ادارہ صحت کا اجلاس طلب

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2020
اجلاس میں یہ تعین کیا جائے گا کہ وائرس کی صورت حال ایمرجنسی کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں — فائل فوٹو: رائٹرز
اجلاس میں یہ تعین کیا جائے گا کہ وائرس کی صورت حال ایمرجنسی کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں — فائل فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ناول کورونا وائرس کی وبا کے باعث صحت عامہ کی عالمی ہنگامی صورتحال کے تعین کے لیے ایمرجنسی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس آڈھانوم غیبریسوس نے جینیوا سے آن لائن نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’چین میں اور عالمی سطح پر اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ڈبلیو ایچ او کی اولین ترجیح ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم ہر دن کے ہر لمحے کی صورتحال کی نگرانی کررہے ہیں‘۔

ایمرجنسی کمیٹی اس بحران سے نمٹنے کے طریقوں پر سفارشات بھی پیش کرے گی۔

صورتحال کی سنگینی کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک کے دارالحکومتوں سے پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے صحافیوں کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: ایئر لائنز نے چین سے اپنی پروازیں معطل کردیں

گزشتہ ہفتے عالمی ادارہ صحت کی کمیٹی نے 2 روز جاری رہنے والی ملاقات میں فیصلہ کیا تھا کہ چونکہ وائرس چین میں ایک شدید تشویش کا باعث ہے لہذا یہ اب تک عالمی ایمرجنسی میں شامل نہیں تھا۔

اس وقت مذکورہ معاملے پر ووٹ تقریباً تقسیم تھا اور آج ہونے والے اجلاس میں یہ تعین کیا جائے گا کہ وائرس اب ایمرجنسی کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسی ڈیزیز یونٹ کی سربراہ ڈاکٹر ماریہ وان کیرکہو نے تمام اقوام کو خوف و ہراس سے بچنے اور بیماری پر قابو پانے پر توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’تمام ممالک کے لیے ہماری ہدایت ہے کہ کیسز کی فوری شناخت کریں، مریضوں کو الگ تھلگ کریں اور علاج فراہم کریں اور گھر کے افراد سمیت سب سے انسانی روابط سے بچیں۔

ڈاکٹر ماریہ وان نے حکومتوں، ایجنسیوں اور میڈیا کو ذمہ داری سے خطرات بیان کرنے اور گمراہ کن معلومات سے گریز کی بھی ہدایت کی۔

وائرس ہوا سے پھیلنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ تنفس کے ذریعے اور براہ راست جسمانی روابط سے منتقل ہوتا ہے۔

ہیلتھ ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیکل ریان نے کہا کہ اس وائرس کا تیزی سے پھیلاؤ تشویش کا باعث ہے لیکن وہ اب تک انہیں یقین نہیں کہ ایسا کیسے ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم اپنے پاس موجود علم کا استعمال کرتے ہیں اور وائرس کو روکنے کے لیے حکمت عملی کی نشاندہی کرتے ہیں، ہم پیچھے ہٹنے اور کچھ نہ کرنے کا انتخاب نہیں کرسکتے‘۔

یہ بھی پڑھیں: چین 'شیطان' وائرس سے لڑ رہا ہے، شی جن پنگ

علاج کی تلاش کے لیے سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان ’بڑے پیمانے پر اشتراک‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت چین اور دیگر قوموں کے ساتھ مل کر اس حوالے سے تعین کے لیے کام کررہا ہے۔

ڈاکٹر مائیکل ریان نے قوموں پر وائرس کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو ترتیب دینے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ’194 ممالک انفرادی اقدامات پر عملدرآمد کررہے ہیں جس کی وجہ سے معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر تباہی کا امکان ہے‘۔

ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا کہ عالمی برادری کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مالی ذرائع اور سیاسی خواہش موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم وائرس کے مرکز پر سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرنے پر چین سے اتفاق کرتے ہیں کیونکہ اس طرح اس سے نمٹنا آسان ہے لیکن اگر آپ کے پاس متعدد مراکز ہوں تو یہ مشکل ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں