سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو پشاور بس منصوبے کی تحقیقات سے روک دیا

اپ ڈیٹ 03 فروری 2020
صوبائی دارالحکومت میں بی آر ٹی منصوبے پر کا آغاز اکتوبر 2014 میں ہوا تھا—فائل فوٹو: عبدالمجید گورایا
صوبائی دارالحکومت میں بی آر ٹی منصوبے پر کا آغاز اکتوبر 2014 میں ہوا تھا—فائل فوٹو: عبدالمجید گورایا

سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو پشاور میں اکتوبر 2017 سے زیر تعمیر بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کی تحقیقات کرنے سے روک دیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ سنایا۔

یاد رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے گزشتہ برس نومبر میں بس منصوبے کے مختلف پہلوؤں کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

تحقیقات روکنے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے بی آر ٹی منصوبے کی مجموعی لاگت اور تکمیل کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے نے بی آر ٹی پشاور میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات شروع کردیں

سماعت میں جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ بی آر ٹی منصوبے کی ابتدائی لاگت کتنی تھی؟ منصوبے کی تکمیل کی ابتدائی تاریخ کیا تھی اور بی آر ٹی منصوبہ کب پایہ تکمیل تک پہنے گا؟۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے دریافت کیا کہ کیا بی آر ٹی منصوبہ مکمل ہونے کی کوئی تاریخ ہے بھی یا نہیں؟

اس موقع پر خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ بغیر وجوہات کے جاری کیا۔

وکیل نے دعویٰ کیا کہ ’ پشاور ہائی کورٹ نے وہ فیصلہ دیا جس کی درخواست گزار نے استدعا ہی نہیں کی تھی‘۔

مزید پڑھیں: پشاور بس پروجیکٹ کی لاگت 71 ارب روپے تک پہنچ گئی

علاوہ ازیں وکیل نے حکومت خیبرپختونخوا کی جانب سے منصوبے کی تکمیل کی نئی تاریخ دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ جولائی 2020 تک بی آر ٹی پشاور منصوبہ مکمل ہوجائے گا۔

جس پر سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو بس ریپڈ ٹرانزٹ کی تحقیقات کے لیے دیا گیا پشاور ہائی کورٹ کا حکم معطل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔

بی آر ٹی منصوبہ

خیال رہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت اور بی آر ٹی پر کام کرنے والے ادارے پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اکتوبر 2017 میں اس کے آغاز کے بعد 6 ماہ یعنی 20 اپریل 2018 تک اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا۔

تاہم ایسا نہ ہوسکا جس کے بعد منصوبے کے منتظمین بدل بدل کر اس کی تکمیل کی مختلف تاریخیں دیتے رہے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کی زیر سربراہی پشاور ہائی کورٹ کے بینچ نے 17 جولائی 2018 کو نیب کو حکم دیا تھا کہ وہ پشاور ریپڈ بس ٹرانزٹ منصوبے کے معاملات کی مکمل تفتیش اور تحقیقات کرے تاہم صوبائی حکومت اور پی ڈی اے نے سپریم کورٹ میں سول پٹیشن دائر کرتے ہوئے اس عدالتی حکم کو معطل کرنے کی استدعا کی تھی۔

اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی زیر سربراہی بینچ نے 4 ستمبر 2018 کو ہائی کورٹ کے حکم نامے کو معطل کردیا تھا اور نیب کی تحقیقات مکمل نہیں ہو سکی تھیں۔

بعدازاں گزشتہ برس نومبر میں 2 درخواست گزاروں افضل کریم آفریدی اور عدنان آفریدی نے حیات آباد ٹاؤن شپ میں واقع اپنے گھروں کے ساتھ تعمیر شدہ منصوبے کے مخلتف حصوں پر پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

اس کے علاوہ ایڈووکیٹ عیسیٰ خان نے بھی عدالت سے استدعا کی تھی کہ منصوبے میں زیادہ سے زیادہ 100 میٹر کے فاصلے پر بالائی گزر گاہ یا زیر زمین گزرگاہوں کی تعمیر کا حکم دیا جائے۔

جس پر پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس احمد علی پر مشتمل بینچ نے 14 نومبر کو بی آر ٹی منصوبے کے حوالے سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا۔

بینچ نے 35 نکات تشکیل دے کر ایف آئی اے کو ان پر تحقیقات اور اس میں پائی جانے والی خامیوں پر کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔

11 دسمبر کو خیبرپختونخوا میں ایف آئی اے کی 5 رکنی خصوصی انکوائری ٹیم نے پشاور ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے میں مبینہ بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا آغاز کردیا تھا۔

جس پر 24 دسمبر کو خیبرپختونخوا حکومت نے بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات رکوانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں