بھارت: چار روز میں مظاہرین پر فائرنگ کا تیسرا واقعہ

03 فروری 2020
متنازع شہریت قانون کے خلاف نئی دہلی میں احتجاج جاری ہے — فائل فوٹو / رائٹرز
متنازع شہریت قانون کے خلاف نئی دہلی میں احتجاج جاری ہے — فائل فوٹو / رائٹرز

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں اپنی نوعیت کا تیسرا واقعہ پیش آیا جس میں نامعلوم ملزمان نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے گیٹ پر فائرنگ کردی۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار ملزمان نے یونیورسٹی کے گیٹ نمبر 5 کے باہر فائرنگ کی تاہم اس سے کوئی زخمی نہیں ہوا۔

یہ متنازع شہریت قانون کے خلاف نئی دہلی میں احتجاج کے دوران چار روز میں پیش آنے والا فائرنگ کا تیسرا واقعہ ہے۔

پولیس نے کہا کہ چند طلبہ نے حکام کو بتایا کہ فائرنگ یونیورسٹی کے گیٹ پر کی گئی جو شاہین باغ سے تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں متنازع شہریت قانون (سی اے اے) کے خلاف مظاہرین نے دو ماہ سے احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے۔

رپورٹ میں سینئر پولیس افسر جَگدیش یادو کے حوالے سے کہا گیا کہ عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کرنے کے بعد واقعے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: غیر مسلم تارکین کو شہریت دینے کا بل، بھارت میں مظاہرے زور پکڑ گئے

دوسری جانب سینئر پولیس افسر کُمار گیانیش کا کہنا تھا کہ جامعہ نگر پولیس اسٹیشن کے اہلکاروں نے جائے وقوع کا دورہ کیا تاہم انہیں وہاں سے گولی کا کوئی خول نہیں ملا۔

انہوں نے کہا کہ فائرنگ کے ملزمان کی جانب سے استعمال ہونے والی سواری سے متعلق بھی متنازع رپورٹس ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ ملزمان موٹر سائیکل پر سوار تھے جبکہ کچھ کے مطابق وہ گاڑی میں آئے تھے۔

واضح رہے کہ یکم فروری کو شاہین باغ کے علاقے میں ایک اور مسلح نوجوان نے فائرنگ کی تھی جسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

نئی دہلی کے جامعہ نگر میں شاہین باغ میں ایک مسلح نوجوان نے فائرنگ کی تاہم کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا۔

سوشل میڈیا میں زیر گردش ویڈیو میں واضح طور پر سنا گیا کہ پولیس کی حراست میں موجود نوجوان چلا رہا ہے کہ 'ہمارے دیش میں اور کسی کی نہیں چلے گی، صرف ہندوؤں کی چلے گی۔'

قبل ازیں 30 جنوری کو نئی دہلی میں ایک ہندو قوم پرست نے انٹرنیٹ پر لائیو اسٹریمنگ کے دوران متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ پر فائرنگ کرکے ایک طالب علم کو زخمی کردیا تھا۔

انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتبہ شخص نے نئی دہلی میں واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر متنازع قانون کے خلاف سراپا احتجاج طلبہ پر یہ کہہ کر فائرنگ کردی کہ 'یہ لو آزادی' اور 'نئی دہلی پولیس زندہ باد'۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت مظاہرے: جامعہ ملیہ کے بعد شاہین باغ میں بھی مسلح نوجوان کی فائرنگ

پولیس نے فائرنگ کرنے والے ہندو قوم پرست نوجوان کو گرفتار کرلیا تھا۔

یاد رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت کے حوالے سے متنازع بل منظور کیا تھا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل پڑوسی ممالک (بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان) سے غیرقانونی طور پر بھارت آنے والے افراد کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمان اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اس بل کی منظوری کے بعد یہ قانون کی شکل اختیار کر گیا تھا جس کے بعد بھارت میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور شمال مشرقی ریاستوں میں احتجاج کے ساتھ ساتھ ملک کے کئی اہم شہروں میں انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔

شہریت ترمیمی قانون ہے کیا؟

شہریت ترمیمی بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت فراہم کرنا ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت بل کےخلاف احتجاج، کرفیو نافذ، درجنوں گرفتار

اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ مت، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں اور مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد ریاست آسام میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں