قومی اسمبلی، سینیٹ میں یوم یکجہتی کشمیر سے متعلق متفقہ قراردادیں منظور

اپ ڈیٹ 04 فروری 2020
کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام قومی اسمبلی میں کشمیر کے حوالے سے قرار داد پیش کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام قومی اسمبلی میں کشمیر کے حوالے سے قرار داد پیش کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

قومی اسمبلی اور سینیٹ میں 'یوم یک جہتی کشمیر' کی مناسبت سے پیش کی گئیں قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں جن میں بھارت سے جموں و کشمیر پر غیر قانونی قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

اسپیکر اسد قیصر کی صدارت میں قومی اسمبلی میں اجلاس ہوا جہاں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام نے مسئلہ کشمیر سے متعلق قرار داد پیش کی جس میں مقبوضہ کشمیر میں عوام کے ساتھ کیے جانے والے مظالم کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔

قرارداد کے نکات

1 - ہم بھارتی حکومت کی جانب سے 5اگست اور 31 اکتوبر 2019 کے یکطرفہ اقدامات اور اس کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں غیرقانونی حراستوں، گرفتاریوں، محاصرے، مواصلات کی بندش، میڈیا بلیک آؤٹ کی مذمت کرتے ہیں جس سے کشمیر کے عوام کو شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

2 - ہم بھارت میں 9لاکھ سے زائد افواج کی موجودگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہیں جس کے سبب پوری وادی ایک جیل کا منظر پیش کررہی ہے اور یہ دنیا میں فوج کی موجودگی کا حامل سب سے بڑا علاقہ بن گیا ہے۔

3 - ہم 13ہزار سے زائد نوجوان کشمیریوں کو نامعلوم مقام پر زیر حراست رکھنے، معصوم شہریوں پر پیلٹ گنز کے استعمال اور عام شہریوں پر تشدد سمیت بھارت کی جانب سے ماضی میں کی گئیں اور حالیہ زیادتیوں کی مذمت کرتے ہیں۔

4 - مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو غیرقانونی حراست اور طویل مدت تک قید میں رکھنے پر ہمیں بہت تشویش ہے خصوصاً حریت رہنما یاسین ملک، شبیر شاہ جنہیں 14سال کی عمر میں پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا اور پھر وقتاً فوقتاً جیل میں رکھا جاتا رہا اور اب 65سال سے زائد عمر ہونے کے باوجود وہ جیل میں ہیں، آسیہ اندرابی مجموعی طور پر 11سال سے جیل میں قید ہیں، سید علی گیلانی نظر بند ہیں، ڈاکٹر قاسم فکتو کو بھی 27سال تک جیل میں رکھا گیا، مسرت عالم مسلسل 19سال سے جیل میں ہیں اور اس طرح کے متعدد قیدی موجود ہیں۔

5 - خواتین پر بہیمانہ تشدد خصوصاً قابض بھارتی فورسز کی جانب سے خواتین کے خلاف ریپ کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

6 - سفاکانہ بھارتی قانون کے ذریعے قابض بھارتی افواج کو استثنیٰ دینے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادانہ نقل و حرکت اور آزادی اظہار پر مستقل پابندیوں کو مسترد کرتے ہیں جو کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

7 - بھارت کی جانب سے سیز فائر کی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہوئے شہری آبادی کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہیں جہاں اس عمل سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے اس پار کشمیریوں کی ہلاکتیں ہوئیں جس سے خطے کے امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

8 - مقبوضہ جموں و کشمیر میں چوتھے جنیوا کنونشن سمیت انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے نسلی کشی کے ذریعے خطے کی آبادی کے اعدادوشمار بدلنے کی سازش پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔

9 - بھارتی حکومت کی ہندوتوا سوچ سے متاثر متشدد اور جنگی جنون کی حامل سوچ کو مسترد کرتے ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خطے کے امن و استحکام کو داؤ پر لگانے کے درپے ہے اور بھارت کی جانب سے کسی بھی قسم کی جارحیت کا جواب دینے کے پاکستانی قوم کے غیرمتزلزل عزم کو دہراتے ہیں۔

10 - اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے 16 اور 15جنوری 2020 کو کی گئی مشاورت کا خیرمقدم کرتے ہیں جس میں تنازع کی عالمی حیثیت کو تسلیم کیا گیا اور 5 اگست کے بعد کی صورتحال اور اس کے خطے کے امن اور سیکیورٹی پر مرتب ہونے والے اثرات پر گفتگو کی گئی۔

11 - آفس آف دی ہائی کمیشن فار ہیومن رائٹس کی جانب سے جون 2018 اور جولائی 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے مرتب کردہ رپورٹ کو سراہتے ہیں اور ہائی کمیشن فار ہیومن رائٹس کونسل کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی آزادانہ عالمی تحقیقات کے مطالبے کی توثیق کرتے ہیں۔

12 - مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھانے پر ہم عالمی رہنماؤں، اراکین پارلیمنٹ، انسانی حقوق کی تنظیموں، بین الاقوامی میڈیا اور متعدد ممالک خصوصاً چین، ملائیشیا، ترکی اور ایران کے کردار کو سراہتے ہیں۔

13 - اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے مسئلے کا پرامن حل یقینی بنائے۔

14 - ہم بھارتی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ جموں و کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی زیر التوا قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنائیں جو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آزادنہ اور شفاف رائے شماری کا مطالبہ کرتی ہیں تاکہ کشمیر کے عوام کی امنگوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کی تقدیر کا فیصلہ کیا جا سکے۔

15 - بھارت سے فوری طور پر 5اگست اور 31اکتوبر 2019 کے غیرقانونی اقدام کو واپس لینے اور منسوخ کرنے، پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ جیسے سفاکانہ قوانین کی منسوخی، مقبوضہ جموں و کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر موجود قابض افواج کے انخلا اور 6ماہ سے جاری غیرانسانی لاک ڈاؤن، مواصلاتی نظام کی بندش اور میڈیا بلیک آؤٹ کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

16 - اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھارت کو مجبور کرے کہ وہ پاکستان اور بھارت میں فوجی مبصر گروپ کو دورے کی اجازت دے اور سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ان کے مینڈیٹ کا احترام کرے۔

17 - بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانیت کی تنظیموں اور اقوام متحدہ سے متصل ممالک کے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی میڈیا کو مقبوضہ جموں و کشمیر تک رسائی کی اجازت دے تاکہ وہاں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا جاسکے۔

18 - اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر فوری طور پر خصوصی اجلاس طلب کرے۔

کشمیر کے مسئلے پر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، شیریں مزاری

اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے کم وقت میں کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا پھر سے کشمیر پر توجہ دینا بہت بڑی کامیابی ہے تاہم ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری قومی اسمبلی میں خطاب کر رہی ہے — فوٹو: ڈان نیوز
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری قومی اسمبلی میں خطاب کر رہی ہے — فوٹو: ڈان نیوز

قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'تنقید کی گئی کہ گزشتہ حکومت نے اراکین پارلیمان کو کشمیر کے مسئلے پر بات کرنے کے لیے پوری دنیا میں بھیجا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے کیا حاصل کیا گیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'دنیا نے اراکین پارلیمان کے دوروں سے ہمارا بیانیہ تسلیم نہیں کیا تھا، جانتی ہوں کہ وزارت خارجہ کے اندر اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ اکیلے کشمیر کے مسئلے کو پوری دنیا کو بتاسکے اور اراکین پارلیمان کو دنیا میں بھیجنے کے حق میں ہوں تاہم بغیر حقائق سے آشنا ہوئے ان کے دوروں سے مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آسکے'۔

انہوں نے کہا کہ 'جب پچھلی حکومت نے اراکین پارلیمان کو دنیا میں بھیجا تو کیا یورپی یونین میں کوئی قرار داد پیش کی گئی تھیں، سلامتی کونسل میں بھی کچھ نہیں ہوا تھا'۔

انہوں نے تجویز دی کہ 'ہمارے اراکین پارلیمان کو معلومات کے ساتھ بھیجنا چاہیے، بدقسمتی سے ہمارے دفتر خارجہ کی سوچ تنگ رہی ہے اور ہم نے کئی چیزوں پر اقدامات نہیں کیے جس سے ہم کشمیر کا مؤقف پیش کرسکتے تھے'۔

مزید پڑھیں: حکومت کا یومِ کشمیر کے حوالے سے 8 روزہ مہم کا اعلان

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ 'ہماری اپنی وزارتِ انسانی حقوق نے پہلی مرتبہ انسانی حقوق کی بنیادوں پر بین الاقوامی برادری کی توجہ دلائی، ہم نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کونسل کو خط لکھ کر کہا کہ کشمیر کے معاملے پر خودمختار کمیشن بنایا جائے تاہم ہمیں چاہیے تھا کہ کونسل میں قرار داد کی کوشش کرتے کیونکہ بغیر قرار داد کے تحقیقاتی کمیشن نہیں بن سکتا'۔

انہوں نے بتایا کہ 'ہماری وزارت نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی مینڈیٹ رکھنے والے 18 نمائندوں کو خط لکھ کر انہیں کشمیر میں خواتین، نوجوانوں اور بچوں کے ساتھ ہونے والے مظالم سے آگاہ کیا، ہم نے اقوام متحدہ کو خط لکھ کر انسانی حقوق کے حوالے سے ایک راہ داری بنانے کا مطالبہ کیا جیسے دیگر متنازع علاقوں میں بنایا گیا تھا تاہم اس وقت ہماری اقوام متحدہ میں نمائندہ نے اس کا فالو اپ نہیں کیا مگر ابھی بھی وقت ہے دفتر خارجہ کو چاہیے کہ اس مسئلے پر بات کریں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بھارت کی فوج نے ریپ کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جو دستاویزات پر موجود ہے، پہلی مرتبہ پاکستان نے عالمی خاتون رہنماؤں کی کانفرنس میں اس مسئلے پر بات کی جسے وہاں تسلیم بھی کیا گیا'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ کہنا کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا بالکل غلط ہے اور افسوس ہے کہ اس مسئلے پر اپوزیشن معلومات نہیں رکھتی یا کشمیر کے مسئلے پر سیاست کھیلنا چاہ رہی ہے'۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ 'اپوزیشن نے تنقید کی کہ چیئرمین کشمیر کمیٹی تاریخ بتارہے تھے اگر تاریخ معلوم نہیں ہوگی تو آپ کیسے اپنا مقدمہ دنیا کے آگے لڑ سکیں گے، کچھ چیزیں ہمیں یاد رکھنی چاہیے، بھارت جب اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو لے کر گیا تھا تو اس نے تسلیم کیا تھا کہ یہ متنازع علاقہ ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس حقیقت کی دفتر خارجہ کی جانب سے تشہیر نہیں کی جارہی تھی، اب ہمیں اسے سب کے سامنے رکھنا ہوگا'۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ

انہوں نے کہا کہ 'بھارت نے ہمیشہ مؤقف اپنایا ہے کہ ہم نے مقبوضہ کشمیر میں جمہوری اسمبلی بنائی، وہاں انتخابات کراتے ہیں اس لیے ریفرنڈم کی ضرورت نہیں، اس کا جواب بھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں موجود ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ 'دو قرار دادیں بہت اہم ہیں جو ہمارے لوگوں کو یاد رکھنی چاہیے، ایک ہے 1951 کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 91 اور دوسری 1957 کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 122، ان دونوں میں واضح کہا گیا ہے کہ اسمبلی یا الیکشن، حق خود ارادیت کا متبادل نہیں ہے'۔

ہر بار چائے نہیں پلائیں گے، اس بار آئیں تو کچھ اور ملے گا، فواد چوہدری

اس موقع پر اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے سانس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھارت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر آپ امن یا محبت نہیں چاہتے تو ہمیں پھر لڑنا بھی آتا ہے، ہماری نرمی اور امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ہر بار آپ کو چائے پلانے کے لیے نہیں بلائیں گے اس بار آپ آئیں گے تو آپ کو چائے کی جگہ کچھ اور ملے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'جو بھی پاکستان کو کمزور سمجھنے کی کوشش کرے گا اسے بھگتنا پڑے گا'۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 'ہمارا دل صرف مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ بھارت میں موجود مسلمانوں کے لیے بھی رو رہا ہے، نریندر مودی کی حکومت نے 72 سال بعد سب کو بتادیا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کتنے عظیم لیڈر تھے'۔

واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست کو اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لے لی تھی۔

انہوں نے جموں و کشمیر کے دو حصے کرتے ہوئے اسے دو وفاقی اکائیوں میں تبدیل کردیا تھا۔

سینیٹ میں منی بل 2020 پیش کرنے پر اپوزیشن کا احتجاج

سینیٹ اجلاس کی صدارت ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے کی۔

ایوان میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد قائد ایوان شبلی فراز نے پیش کی۔

قرارداد میں بھارتی مظالم کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ایوان کشمیریوں کی جدوجہد کو سلام پیش کرتا ہے۔

قرارداد میں کشمیریوں کی قربانیوں پر عالمی برادری سے نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف عالمی سطح پر تحقیقات کرائی جائے، بھارت اپنے کالے قوانین واپس لے اور چھ ماہ سے جاری کرفیو ختم کیا جائے۔

ڈپٹی چیئرمین نے حکومت کو منی بل 2020 پیش کرنے کی اجازت دی تو اپوزیشن نے احتجاج کیا۔

اپوزیشن اراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ یہ بل نہیں آرڈیننس ہے اسے پیش نہ کیا جائے اور اس پر ایوان کی رائے لی جائے جس کے بعد اس پر بحث کی گئی۔

اپوزیشن لیڈر راجہ ظفرالحق نے سوال کیا کہ کیا آرڈیننس، منی بل کی شکل میں پیش کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ قومی اسمبلی سے بل کی شکل میں ہمارے پاس آیا اس پر کس سے رائے لوں؟

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن اور دیگر نے بھی اس بل مخالفت کی۔

وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے بتایا کہ یہ آرڈیننس 28 دسمبر کو جاری ہوا، آج بل کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے۔

قائد ایوان شبلی فراز نے ڈپٹی چیئرمین سے درخواست کی کہ یہ منی بل کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کریں۔

منی بل کی کاپی متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دی گئی جو 10 روز میں اپنی سفارشات مرتب کرکے قومی اسمبلی کو بھجوائے گی۔

سینیٹ کا اجلاس جمعہ کی صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں