کوئٹہ: پولیس سے جھڑپ میں درجنوں طلبہ گرفتار

اپ ڈیٹ 12 فروری 2020
پولیس نے مزید بتایا کہ متعدد مرتبہ انتباہ کے باوجود مظاہرین منتشر نہیں ہوئے — فائل فوٹو: اے ایف پی
پولیس نے مزید بتایا کہ متعدد مرتبہ انتباہ کے باوجود مظاہرین منتشر نہیں ہوئے — فائل فوٹو: اے ایف پی

کوئٹہ میں بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے طلبہ اور عہدیداروں کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس کے بعد پولیس نے درجنوں طلبہ مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔

مذکورہ واقعہ کوئٹہ میں جی پی او چوک کے قریب پیش آیا۔

جامعہ کے طلبہ و عہدیدار مظاہرے کے دوران یونیورسٹی کی اصل حالت کی بحالی، فیسوں میں کمی اور وائس چانسلر کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کو ہراساں کرنے کے واقعات پر احتجاج

مظاہرین نے بتایا کہ وہ پرامن مظاہرہ کر رہے تھے لیکن پولیس نے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہمیں سیکیورٹی فراہم کرنے کے بجائے پولیس نے ہمارے ساتھ بُرا سلوک کیا۔

دوسری جانب سرکاری عہدیداروں کے مطابق بلوچستان اسمبلی کے باہر شروع ہونے والا احتجاج جی پی او چوک منتقل ہوا جس کی وجہ سے ٹریفک کی آمد و رفت بری طرح متاثر ہوگئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ متعدد مرتبہ انتباہ کے باوجود مظاہرین منتشر نہیں ہوئے۔

عہدیداروں نے بتایا کہ مظاہرین نے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نقیب اللہ کے خلاف بھی نعرے بازی کی۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: احتجاج کرنے والے اساتذہ کو ایک سال قید،5 لاکھ جرمانہ تجویز

پولیس نے بتایا کہ مظاہرین کو تھانے لے جایا گیا۔

زیر حراست درجنوں افراد کی حمایت میں ایک ہیش ٹیگ نے ٹویٹر پر ٹرینڈ کرنا شروع کردیا۔

ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے ڈان نیوز کو بتایا کہ مظاہرین کو گرفتار نہیں بلکہ محض حراست میں رکھنے کے چند گھنٹوں بعد چھوڑ دیا گیا۔

حراست میں لیے گئے مظاہرین کی تعداد سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی آئی جی نے کہا کہ ان کے پاس درست تعداد نہیں ہے۔

تاہم انہوں نے مزید کہا کہ مظاہرین کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: سرکاری اسکولوں کے اساتذہ ریاضی میں ’فیل‘

گرفتاری کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن بلوچستان چیپٹر کے صدر ڈاکٹر عبداللہ رحیم نے گرفتاریوں کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن (اے پی سی اے) کے سینئر عہدیدار یونس کاکڑ نے کہا کہ پرامن مظاہرین کے خلاف کارروائی کرنا قانون کے منافی ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں گرفتاریوں پر مذمت

بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور احمد بلیدی سمیت دیگر وزرا نے طلبہ کی گرفتاریوں کی مذمت کی۔

جس پر بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر میرعبد القدوس بزنجو نے کہا کہ 'آپ وزیر ہیں اور یہ آپ کی حکومت ہے تو گرفتاریوں کی مذمت کیوں کر رہے ہیں؟'

معاملے پر اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو اور میر ظہور احمد کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔

اسپیکر نے وزیر خزانہ کو مخاطب کرکے کہا کہ 'ان کا طرز عمل نامناسب ہے، آپ اسپیکر سے اس طرح بات نہیں کرسکتے ہیں اور اگر حکومت کسی کو گرفتار کرتی ہے تو انہیں اس کی وجہ بتانے کی ضرورت ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: بلدیاتی حکومتوں کا احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان

جس پر صوبائی وزیر خزانہ ظہور احمد نے کہا کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اس لیے وہ معافی نہیں مانگیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے، یونیورسٹی کے نااہل وائس چانسلر کی وجہ سے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں، ان کی وجہ سے ہمارے بچے سڑکوں پر ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں