جسٹس عیسیٰ کیس: 'اٹارنی جنرل اپنے بیان سے متعلق مواد دیں یا تحریری معافی مانگیں'

اپ ڈیٹ 19 فروری 2020
جسٹس عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینئر جج ہیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینئر جج ہیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر کی درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ اٹارنی جنرل اپنے بیان سے متعلق مواد پیش کریں، اگر مواد نہیں آتا تو وہ تحریری معافی مانگیں۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس عیسیٰ و دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی، جہاں اٹارنی جنرل انور منصور خان نے دلائل دیے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ سپریم جوڈیشل کونسل کی ذمہ داری ہے کہ جج کے کنڈکٹ کا جائزہ لے، اس پر جسٹس عمر عطابندیال نے سوال کیا کہ پہلے ہمیں کیس کا بتا دیں، بظاہر تو مقدمہ ٹیکس کا لگتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ روز بھی اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں، ہمیں کیس پر فوکس کرنا ہے، کس لفظ کی کیا تعریف ہے یہ مقدمہ نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز ریفرنس: ناخوشگوار انداز میں اٹارنی جنرل کے دلائل کا آغاز

عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو برطانیہ کی جائیدادیں گوشواروں میں ظاہر کرنا چاہیے تھیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ دکھا دیں کہ اہلیہ کے اثاثے دراصل معزز جج کے اثاثے ہیں۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ حقائق کا جائزہ جوڈیشل کونسل نے لینا ہے، جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ریفرنس سے پڑھ کر بتا دیں کہ الزام کیا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی پر ریفرنس میں 2 الزام ہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس عیسیٰ نے شوکاز نوٹس کا جواب داخل کیا، اس وقت تک جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو چیلنج نہیں کیا گیا جبکہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف ایگزیکٹو نے کوئی انکوائری نہیں کی۔

انہوں نے بتایا کہ شواہد اکٹھے ہوئے جن کی بنیاد پر ریفرنس دائر ہوا، صدارتی ریفرنس میں کونسل سے معاملے کا جائزہ لینے کی استدعا کی گئی۔

اپنے دلائل میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کا الزام لگایا، اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کونسل کی کارروائی کو چیلنج نہیں کیا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اگر ہمارا دائرہ اختیار نہیں تو صاف بات کریں، آپ ہمیں مس کنڈکٹ پڑھا رہے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی مجھے دوسرا دن ہے دلائل دیتے ہوئے، اس پر سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ دو ماہ لے لیں۔

عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ جو ریلیف عدالت عظمیٰ دے سکتی ہے کیا وہ کونسل دے سکتی ہے، ساتھ ہی جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ مس کنڈکٹ کی بات کریں یہ اثاثہ جات کا مقدمہ ہے۔

اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 3 جائیدادیں خریدنے کے لیے پیسہ ملک سے باہر گیا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون اور مروجہ طریقہ کار کے مطابق متعلقہ لوگوں سے سوال کریں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سوالات کا جواب دوں گا، اس پر جج نے کہا کہ چلیں آپ کے جوابات کا انتظار رہے گا۔

عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اثاثہ جات برآمدگی یونٹس (اے آر یو) کا کام تھا کہ آپ کو قانون بتاتا، آپ تیاری کے بغیر عدالت آگئے ہیں، آپ ہمارا وقت خوبصورتی کے ساتھ ضائع کررہے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کل آپ نے اتنی بڑی بات کردی ہے، غیر ملکی اثاثوں کے حوالے سے قانون موجود ہے وہ قانون بتائیں، کیا اس قانون کا اطلاق ججز پر ہوتا ہے یہ بھی بتا دیں، یہ دلائل کا طریقہ کار نہیں، تحریری طور پر اپنا دلائل دیں۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریری دلائل نہیں دے سکتا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے بینچ کے حوالے سے گزشتہ روز کچھ بیان دیا، اٹارنی جنرل اپنے بیان کے حوالے سے مواد عدالت میں پیش کریں، اگر اٹارنی جنرل کو مواد میسر نہیں آتا تو تحریری معافی مانگیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ امید ہے کہ مطلوبہ دستاویزات پیش کی جائیں گی۔

دوران سماعت جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ جن غیر ملکی حوالہ جات کا ذکر کیا گیا ان کا اطلاق کدھر کریں۔

ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست گزار نے بدنیتی کا الزام لگایا، ہمیں یہ بتا دیں کہ 2010 کے عدالتی فیصلے سے اختلاف کیسے کریں، ٹیکس کے معاملے کی انکوائری کے بغیر ریفرنس بنا دیا۔

یہ بھی پڑھیں: منیر ملک کا جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر توہین عدالت کے مقدمے کا مطالبہ

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا کوئی شخص اپنی اہلیہ اور بچوں کے غیر ملکی اثاثوں پر قابل احتساب ہے، کیا یہ ایک ایف آئی آر ہے یا صدارتی ریفرنس ہے؟ (کیونکہ) صدارتی ریفرنس ٹھوس مواد پر ہوتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جج کی اہلیہ اور بچوں سے جواب مانگے بغیر ریفرنس بنادیا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سوالات کے جوابات آئندہ تاریخ پر دوں گا۔

گزشتہ سماعت پر کیا ہوا؟

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملے کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل انور منصور خان نے شعلہ بیانی سے اپنے دلائل شروع کیے تھے اور فل کورٹ کے سامنے ایک بیان دیا تھا۔

اس پر ججز نے انہیں استثنیٰ دیتے ہوئے بیان سے دستبردار ہونے کا کہا تھا اور ان کے بیان کو ’بلاجواز‘ اور ’ انتہائی سنگین‘ قرار دیا تھا، تاہم ججز نے میڈیا کو مذکورہ معاملے پر رپورٹنگ سے روک دیا تھا۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز اس بیان سے کیا تھا کہ انہیں احساس ہے کہ انہوں نے کچھ ایسا کہا تھا جو عدالتی بینچ کے لیے خوشگوار نہیں تھا، اس پر جسٹس مقبول باقر نے ردعمل دیا تھا کہ ’یہ بلاجواز تھا‘۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ وہ اس میں کچھ شامل نہیں کریں گے لیکن جسٹس سید منصور عل شاہ نے ریمارکس دیے تھے کہ انور منصور خان نے ’سنگین بیان‘ دیا تھا اور انہیں اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔

ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ’آپ ریاست ہیں اور گر آپ کے کچھ مسائل یا تحفظات ہیں تو آپ روسٹرم پر اظہارِ خیال کے بجائے تحریری شکل میں دے سکتے ہیں‘۔

تاہم اٹارنی جنرل نے بیان واپس لینے سے انکار کردیا تھا لیکن عدالت نے میڈیا کو بیان شائع کرنے سے منع کردیا تھا کیونکہ بعدازاں ’اٹارنی جنرل اپنے بیان سے دستبردار ہوگئے تھے‘۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر تھا۔

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: سپریم کورٹ نے 2 اہم قانونی نکات اٹھادیے

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ بینچ سماعت کررہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں