اٹارنی جنرل انور منصور خان اپنے عہدے سے مستعفی

اپ ڈیٹ 20 فروری 2020
انور منصور خان جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں حکومت کی جانب سے پیروی کررہے تھے —فائل فٹو: ڈان نیوز
انور منصور خان جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں حکومت کی جانب سے پیروی کررہے تھے —فائل فٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ میں 'متنازع بیان' دینے کے بعد انور منصور خان نے اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ ان سے استعفیٰ مانگا گیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ارسال کردہ استعفے میں انہوں نے کہا کہ ’میں انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ پاکستان بار کونسل جس کا میں چیئرمین ہوں، نے 19 فروری 2020 کو ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ میں اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے سے استعفٰی دے دوں‘۔

یہ بات مدِ نظر رہے کہ انور منصور خان، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کی درخواستوں میں حکومت کی نمائندگی کررہے تھے۔

استعفے میں انہوں نے کہا کہ ’کراچی بار ایسوسی ایشن، سندھ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ ایسوسی بار ایسوسی ایشن کے تاحیات رکن کی حیثیت اور اس سے قبل ایڈووکیٹ جنرل سندھ، اٹارنی جنرل فار پاکستان اور سندھ ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر خدمات انجام دینے کی حیثیت سے میں بار میں اپنے بھائیوں اور ساتھیوں کے ساتھ کھڑا ہوں اور پاکستان بار کونسل کے اتحاد اور پیشہ ورانہ مہارت کے اصولوں پر اپنے یقین کی تصدیق چاہتا ہوں جس کے لیے پاکستان بار کونسل ہمیشہ کھڑا ہوا‘۔

اپنے استعفے کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ’اس کے مطابق میں اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ اسے فوری طور پر قبول کیا جائے‘۔

حکومت کا اٹارنی جنرل کے سپریم کورٹ میں دیے گئے بیان سے اظہار لاتعلقی

اٹارنی جنرل کا استعفیٰ—فوٹو: ناصر اقبال
اٹارنی جنرل کا استعفیٰ—فوٹو: ناصر اقبال

ادھر اٹارنی جنرل کے بیان پر وفاقی حکومت کی طرف سے محکمہ قانون و انصاف کے سیکریٹری محمد خشیش الرحمٰن نے عدالت عظمیٰ میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا تھا کہ 18 فروری 2020 کو اٹارنی جنرل انور منصور خان نے مذکورہ بینچ کے سامنے زبانی بیان دیا جو غیر مجاز اور وفاق حکومت کی ہدایت اور علم میں لائے بغیر تھا اور جواب دہندگان اسے مکمل طور پر بلاجواز سمجھتے ہیں۔

ساتھ ہی اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ وفاقی حکومت اور جواب دہندگان پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کی انتہائی عزت و احترام کرتے ہیں، لہٰذا وفاقی حکومت اور جواب دہندہ خود اٹارنی جنرل کے مذکورہ بیان سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت اور جواب دہندگان قانون، آئین کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔

پاکستان بار کونسل کا مطالبہ

واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نائب صدر عابد ساقی نے ایک بیان میں اٹارنی جنرل سے غیر مشروط تحریری معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے 'غیر معمولی طرز عمل' پر استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔

قبل ازیں پی بی سی کے بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان بار کونسل عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو نقصان پہنچانے کے کسی بھی حکومتی زیر اثر عمل کو برداشت نہیں کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: 'اٹارنی جنرل اپنے بیان سے متعلق مواد دیں یا تحریری معافی مانگیں'

پی بی سی نے کہا تھا کہ اٹارنی جنرل کا عدالت عظمیٰ میں غیرمعمولی رویہ پریشان کن ہے لہٰذا ان کے اور وزیر قانون کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جائے گی۔

تاہم بعد ازاں توہین عدالت کی درخواست کا مسودہ تیار کیا گیا تھا لیکن اس وقت تک دائر نہیں کیا جاسکا۔

حکومت کی اٹارنی جنرل سے استعفیٰ لینے کی تصدیق

علاوہ ازیں انور منصور خان نے نجی چینل اے آر وائے سے گفتگو کرتے ہوئے مستعفی ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ پاکستان بار کونسل نے مجھ سے استعفیٰ مانگا تھا، اگر اپنی برادری کہتی ہے کہ استعفیٰ دیں تو ان کی بات کو تسلیم کرنا چاہیے۔

ادھر اٹارنی جنرل کے استعفے پر وزیر قانون فروغ نسیم نے نجی چینل اے آر وائے سے بات چیت کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے انور منصور خان سے استعفیٰ لینے کی تصدیق کی۔

انہوں نے کہا کہ انور منصور خان نے 2 روز قبل سپریم کورٹ میں جو بیان دیا وہ کسی کے علم میں نہیں تھا اور وہ بیان غیر مجاز اور بلاجواز تھا۔

فروغ نسیم نے کہا کہ وزیر اعظم، صدر مملکت، شہزاد اکبر اور میری جانب سے سپریم کورٹ میں بیان جمع کروایا گیا ہے کہ انور منصور خان کے بیان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، ہم نے اپنے بیان میں انور منصور خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں اور یہ بیان دینے کے بعد انور منصور خان سے استعفیٰ دینے کی درخواست کی گئی تھی کہ وہ مستعفی ہوجائیں تو اچھا ہے تاکہ ہمیں کوئی اقدام نہ اٹھانا پڑے جس کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔

دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے اے آر وائے نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے 2 روز قبل سپریم کورٹ میں جو بیان دیا تھا وہ ہمارے لیے بھی سرپرائز تھا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ آج وفاقی سیکریٹری قانون نے وفاق کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک بیان بھی جمع کروایا ہے جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کے بیان کا وفاقی حکومت اور کسی فریق سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ بیان غیر مجاز طریقے سے کسی ہدایت کے بغیر دیا گیا تھا۔

معاون خصوصی نے کہا کہ ہم نے اسی تناظر میں سپریم کورٹ میں بیان جمع کروایا ہے کیونکہ وفاقی حکومت اور وزیر قانون فروغ نسیم، ہم سب سپریم کورٹ اور تمام ججز کا بے حد احترام کرتے ہیں اور اسی لیے وضاحتی بیان جمع کروایا گیا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل کو عہدے سے الگ ہونے کا کہا گیا تھا، حکومت نے ان سے استعفی مانگا تھا۔

استعفیٰ کا پس منظر

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کے لیے دائر کی گئی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں معاملہ زیر التوا ہے۔

اس کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر کے وکیل اپنے دلائل دے چکے ہیں اور اب حکومتی مؤقف کے لیے اٹارنی جنرل کو دلائل دینے تھے، جس پر انہوں نے 18 فروری کو اپنے دلائل کا آغاز کیا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز ریفرنس: ناخوشگوار انداز میں اٹارنی جنرل کے دلائل کا آغاز

18 فروری کو اپنے دلائل کے پہلے روز ہی صورتحال اس وقت ناخوشگوار ہوگئی تھی جب اٹارنی جنرل نے شعلہ بیانی سے دلائل کا آغاز کیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کے سامنے ایک بیان دیا تھا، جس پر ججز نے انہیں استثنیٰ دیتے ہوئے بیان سے دستبردار ہونے کا کہا تھا، ساتھ ہی مذکورہ بیان کو ’بلاجواز‘ اور ’ انتہائی سنگین‘ قرار دیا تھا۔

اس بیان سے متعلق عدالت نے میڈیا کو رپورٹنگ سے روک دیا تھا۔

اسی روز کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ انہیں احساس ہے کہ انہوں نے کچھ ایسا کہا تھا کہ جو عدالتی بینچ کے لیے خوشگوار نہیں تھا، جس کے جواب میں بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے ردعمل دیا تھا کہ ’یہ بلاجواز' تھا۔

ساتھ ہی عدالت کے ایک اور رکن جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے تھے کہ انور منصور کو اپنے بیان سے دستبردار ہونا چاہیے۔

تاہم اٹارنی جنرل نے بیان واپس لینے سے انکار کردیا تھا جس کے ساتھ ہی عدالت نے میڈیا کو بیان شائع کرنے سے منع کردیا تھا کیونکہ بعدازاں یہ رپورٹ ہوا تھا کہ ’اٹارنی جنرل اپنے بیان سے دستبردار ہوگئے تھے‘۔

بعد ازاں 19 فروری کو جسٹس عیسیٰ کے معاملے پر عدالت عظمیٰ میں دوبارہ سماعت ہوئی تھی۔

اس سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ کل آپ نے اتنی بڑی بات کردی ہے، یہ دلائل کا طریقہ کار نہیں، تحریری طور پر اپنے دلائل دیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئین اور نظام کی مضبوطی کے باعث معاملہ جلد نمٹ گیا، اٹارنی جنرل

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ تحریری دلائل نہیں دے سکتا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ اٹارنی جنرل نے بینچ کے حوالے سے گزشتہ روز کچھ بیان دیا، اٹارنی جنرل اپنے بیان کے حوالے سے مواد عدالت میں پیش کریں، اگر اٹارنی جنرل کو مواد میسر نہیں آتا تو تحریری معافی مانگیں۔

انور منصور بحیثیت اٹارنی جنرل

یاد رہے کہ عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حکومت سنبھالنے کے بعد 18 اگست کو انور منصور خان کو اٹارنی جنرل کے عہدے پر تعینات کیا تھا تاہم خاصی تاخیر کے بعد 30 اگست کو ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔

انور منصور خان کراچی سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل ہیں جنہوں اس سے قبل عمران خان کی نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر ان کی جانب سے پیروی کی تھی۔

خیال رہے کہ انور منصور خان اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دورِ حکومت میں بھی اٹارنی جنرل کے عہدے پر فرائض انجام دے چکے تھے۔

تاہم اس وقت انہوں نے 2 اگست 2010 کو اس وقت کے وزیر قانون بابر اعوان کے ساتھ مبینہ اختلافات پر استعفیٰ دے دیا تھا۔

واضح رہے کہ ہر وہ سیاسی جماعت جو حکومت بناتی ہے مرکز میں اپنی مرضی کے کسی نمایاں وکیل کو اٹارنی جنرل کے عہدے پر تعینات کرتی ہے جس پر اسے مکمل اعتماد ہو۔

اٹارنی جنرل کا عہدہ بہت اہمیت کا حامل ہے اس لیے عدالت عظمیٰ میں وفاق کی نمائندگی کرنے اور ریاست کے دونوں ستونوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جاتا ہے جسے قانون کی گہرائی کے ساتھ مکمل سمجھ، بار کا خاصہ تجربہ اور سپریم کورٹ کا جج تعینات ہونے کی قابلیت پر پورا اترتا ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں