چین کا وال اسٹریٹ جنرل کے 3 صحافیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم

اپ ڈیٹ 20 فروری 2020
کالم میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے چینی حکومت کے اقدامات پر تنقید کی گئی تھی —تصویر: اے ایف پی
کالم میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے چینی حکومت کے اقدامات پر تنقید کی گئی تھی —تصویر: اے ایف پی

چین نے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے 3 صحافیوں کی صحافتی اسناد منسوخ کرتے ہوئے انہیں 5 روز میں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔

چینی وزارت خارجہ کے مطابق یہ اقدام اخبار کے ایک کالم پر اٹھایا گیا جس کے عنوان میں چین کو ریئل سک مین آف ایشیا یعنی ایشیا کا حقیقی بیمار شخص کہا گیا تھا اور اس پر معافی مانگنے سے انکار کردیا تھا۔

خیال رہے کہ امریکی اخبار میں شائع ہونے والے اس کالم میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے چینی حکومت کے اقدامات پر تنقید کی گئی تھی۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے چین کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کی وبا دنیا کی معشیت کے لیے بھی مضر!

پریس بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان چینی وزارت خارجہ جینگ شوانگ نے کہا کہ ’چینی عوام ایسے میڈیا کا استقبال نہیں کرتا جو نسل پرستانہ بیانات شائع اور چین پر بدنیتی سے حملے کریں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی روشنی میں چین نے بیجنگ میں موجود وال اسٹریٹ جنرل کے تینوں نامہ نگاروں کے پریس کارڈ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘۔

معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بیجنگ نے اخبار میں 3 فروری کو شائع ہونے والے کالم پر سخت ردِ عمل دیا تھا لیکن اخبار نے نہ تو معافی مانگی اور نہ ہی ذمہ داران کے خلاف تحقیقات کیں۔

انہوں نے صحافیوں کی شناخت نہیں بتائی البتہ وال اسٹریٹ جنرل نے کہا کہ اس کے ڈپٹی بیورو چیف جوش چِن اور رپورٹرز چاؤ ڈینگ اور فلپ وین کو 5 روز میں چین سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: فوڈ مارکیٹ کا ایک جانور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بنا، تحقیق

واضح رہے کہ چین کا یہ اقدام امریکا کی جانب سے اس اعلان کے بعد سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ چین کے 5 سرکاری میڈیا اداروں کے ساتھ غیر ملکی سفارتخانوں کی طرح سلوک کرے گا۔

اس کے تحت چین کے خبر رساں ادارے شِن ہوا، چائنہ گلوبل ٹیلویژن نیٹ ورک اور چائنہ ڈیلی ڈسٹری بیوشن کارپ کو امریکا میں موجود اپنے ملازمین اور جائیدادوں کو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں رجسٹر کروانا پڑے گا۔

تاہم چین نے اس نئے اصول کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیجنگ جواب دینے کا حق رکھتا ہے، اس سے قبل چین نے گزشتہ برس وال اسٹریٹ کے ایک رپورٹر کی صحافتی اسناد کی تجدید کرنے سے انکار کردیا تھا۔

واضح رہے کہ چین میں سرکاری اسناد کے بغیر غیر ملکیوں کو صحافی کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت نہیں جس کے لیے رہائشی ویزا لینا ضروری ہے۔

امریکا کا ردِ عمل

امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے چین کی جانب سے صحافیوں کی صحافتی اسناد منسوخ کرنے کے اقدام کی مذمت کی۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کن افراد کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ’پختہ سوچ کے حامل ذمہ دار ممالک اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ایک آزاد پریس حقائق رپورٹ کرتا ہے اور آرا پیش کرتا ہے‘۔

امریکی سیکریٹری کا مزید کہنا تھا کہ ’درست ردِ عمل جوابی دلائل دینا ہے اظہار رائے پر پابندی لگانا نہیں‘۔

دوسری جانب غیر ملکی نامہ نگاروں کے ’کلب آف چائنا نے بھی اس اقدام پر ’گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں