اٹارنی جنرل تنازع، حکومت نے جسٹس عیسٰی کیس میں التوا مانگ لیا

اپ ڈیٹ 22 فروری 2020
خالد جاوید قائم مقام وزیراعظم ناصر الملک کے دور میں یہ عہدہ سنبھال چکے ہیں—فائل فوٹو: اے پی پی
خالد جاوید قائم مقام وزیراعظم ناصر الملک کے دور میں یہ عہدہ سنبھال چکے ہیں—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کی جانب سے نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کے حکم کے باوجود نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے کے باعث وفاقی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں 3 ہفتوں کا التوا مانگ لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ وزارت قانون کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس تعیناتی کے لیے 21 فروری (جمعہ) کو سمری ارسال کرے۔

تاہم متعلقہ حکام کی جانب سے سندھ سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ کی اعلیٰ قانونی عہدے پر تعیناتی میں سست روی یا بظاہر ہچکچاہٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین میں خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خالد جاوید کو نیا اٹارنی جنرل تعینات کرنے کی منظوری

کئی مسائل بالخصوص معاشی محاذ پر نبردآزما حکمران جماعت کے ارکان کو یقین ہے کہ عمران خان کی سربراہی میں حکومت اس نازک موڑ پر کسی مس ایڈوینچر کی متحمل نہیں ہوسکتی جب سپریم کورٹ اور وکلا برادری نے سابق اٹارنی جنرل کے 18 فروری کو دیے گئے بیان کو مسترد کرچکے ہیں۔

اس ضمن میں ایک سینئر وزیر نے نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست پر کہا کہ ’میں حیران ہوں کہ وزیراعظم کی جانب سے کابینہ اجلاس سمیت 3 مرتبہ اس سلسلے میں ہدایات جاری کرنے کے باوجود کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا‘۔

دوسری جانب خالد جاوید خان کو تعینات کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً غور و خوص کیا جاتا رہا ہے، وزیراعظم اس انتخاب سے بے حد خوش تھے کیونکہ وہ قائم مقام وزیراعظم ناصر الملک کے دور میں یہ عہدہ سنبھال چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: سابق اٹارنی جنرل نے اپنے بیان پر سپریم کورٹ سے 'غیر مشروط' معافی مانگ لی

خالد جاوید خان نے کہا تھا کہ انہوں نے اس وقت اٹارنی جنرل کےعہدے سے اس لیے استعفیٰ دیا تھا کہ انہیں محسوس ہوا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت انور منصور کو اٹارنی جنرل تعینات کرنا چاہتی ہے۔

اس وقت بھی سینئر وکلا جن میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد جمال سکھیرا، خالد جاوید خان، سید علی ظفر اور عابد زبیری کے ناموں کی باز گشت کچھ عرصے سے سنائی دے رہی تھی جبکہ اس میں نعیم بخاری بھی شامل تھے جنہوں نے پیشکش مسترد کردی تھی۔

اس ضمن میں حکمراں جماعت کے رکن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا نقطہ نظر بہت واضح ہے کیونکہ وزیراعظم کا ماننا ہے کہ ایسا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت عدلیہ کی دشمن ہے یا اس کے ساتھ محاذ آرائی چاہتی ہے۔

اسی وجہ سے وزیراعظم نے شیخ رشید کی ان باتوں پر توجہ نہیں دی تھی جو انہوں نے پاکستان ریلوے کے خسارے پر عدلیہ کی جانب سے برہمی کے اظہار کے بعد کہی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: سابق اٹارنی جنرل نے اپنے بیان پر سپریم کورٹ سے 'غیر مشروط'

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ایک ایسا شخص چاہتے ہیں جو عدلیہ اور حکومت کے درمیان فاصلے کو دور کرے اور اس سلسلے میں خالد جاوید خان بہترین انتخاب ہیں۔

پی ٹی آئی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس کی سماعت 3 ہفتوں تک ملتوی کرنے کی درخواست دائر کردی گئی ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت دیگر آپشنز مثلاً احمد جمال سکھیرا پر بھی غور کررہی ہے۔

چنانچہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمٰن کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی 24 فروری کو مقررہ سماعت 3 ہفتوں کے ملتوی کرنے کی درخواست دائر کی گئی تاکہ وزارت قانون نیا اٹارنی جنرل تعینات کرسکے جسے کیس کی تیاری کے لیے وقت بھی درکار ہوگا۔

اس بات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت متنازع بیان کے بعد کیس کی قسمت کے حوالے سے پائے جانے والے عام تاثر کے برعکس اس معاملے کی پیروی جاری رکھنا چاہتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں