اسلام آباد ہائیکورٹ: سوشل میڈیا قواعد کے خلاف درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری

اپ ڈیٹ 24 فروری 2020
درخواست پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی — فائل فوٹو: اے ایف پی
درخواست پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کے منظور کردہ سوشل میڈیا قواعد کے خلاف دائر درخواست پر وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔

ایڈووکیٹ احسن ستی کی دائر درخواست پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے ان کے وکیل جہانگیر خان جدون عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پٹیشن میں سوشل میڈیا کے حوالے سے سیٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) رولز 2020 کو چیلنج کیا گیا ہے۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت سوشل میڈیا کو کنٹرول کرکے آزادی اظہار رائے کو سلب کرنا چاہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا کو ’کنٹرول‘ کرنے کا حکومتی اقدام عدالت میں چیلنج

جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پوری دنیا میں ریگولیشنز ہوتی ہیں۔

جہانگیر خان نے عدالت سے استدعا کی کہ سوشل میڈیا رولز آئین سے متصادم ہیں، حکومت کو نوٹس کرکے پوچھ لیا جائے کہ ان رولز کا کیا اسٹیٹس ہے۔

جہانگیر خان خدون نے کہا کہ سوشل میڈیا رولز 2020 پر عمل درآمد کے لیے نیشنل کوآرڈینیٹر تعینات کیا جارہا ہے، جسے اتھارٹی سے بھی زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں لیکن کوآرڈینیٹر کیسے تعینات ہوگا؟ اس کی تعلیم کیا ہو گی؟ اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں۔

بعدازاں عدالت نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مذکورہ درخواست میڈیا کے حوالے سے پہلے سے زیر سماعت کیس کے ساتھ مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی سوشل میڈیا قواعد پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنے کی ہدایت

خیال رہے کہ درخواست گزار نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ کہ سوشل میڈیا پر قدغن لگانے کی غرض سے 28 جنوری 2020 کو وفاقی کابینہ نے سیٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) رولز 2020 کی منظوری دی۔

مذکورہ درخواست میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے منظور کردہ قواعد معلومات حاصل کرنے کے بنیادی حق کے خلاف اور آئین میں شہریوں کی بنیادی حقوق کی دی گئی ضمانت سے بھی متصادم قرار دیا گیا تھا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اس قواعد میں سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنا دفتر بالخصوص ڈیٹا بیس سرورز پاکستان میں قائم کرنے اور رجسٹر کروانے کی شرط رکھی گئی ہے، ان قواعد کا بنیادی مقصد سوشل میڈیا کو حکومت کے بلاواسطہ کنٹرول کے ذریعے قابو میں کرنا ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ یہ قواعد آئین پاکستان، برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 اور پاکستان ٹیلی کمیونکیشن (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیجیٹل کمپنیوں کا حکومت سے آن لائن ریگولیشن پر نظرثانی کا مطالبہ

علاوہ ازیں پٹیشن میں دیگر ممالک کے سوشل میڈیا قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کسی قابل ذکر جمہوری ملک میں سخت میڈیا پالیسی نافذ نہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کسی ملک میں شاید ہی کوئی ایسا جامع قانون موجود ہے جو سوشل میڈیا کے تمام پہلوؤں کو ریگولیٹ کرتا ہو تاہم صنعت میں سرکاری عناصر کے حوالے سے قواعد و ضوابط موجود ہیں۔

درخواست گزار نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ یہ قواعد چونکہ آئین کی دفعہ 19، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے منظور کردہ انٹرنیشنل کنوینشن برائے سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس اور یورپی کنویشن برائے انسانی حقوق کی دفعہ 10 اور اس کے 5 پروٹوکول کے خلاف ہیں اس لیے انہیں کالعدم قرا دیا جائے۔

سوشل میڈیا ریگولیٹری قواعد

خیال رہے کہ 28 جنوری کو وفاقی حکومت نے ملک میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دی تھی جس کا اعلان 12 فروری کو کیا گیا تھا۔

ان اصولوں کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں کسی تفتیشی ادارے کی جانب سے کوئی معلومات یا ڈیٹا مانگنے پر فراہم کرنے کی پابند ہوں گی اور کوئی معلومات مہیا نہ کرنے کی صورت میں ان پر 5 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد ہوگا۔

مزید پڑھیں: حکومت نے سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی

اس حوالے سے جو معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں ان میں صارف کی معلومات، ٹریفک ڈیٹا یا مواد کی تفصیلات شامل ہیں۔

ان قواعد و ضوابط کے تحت اگر کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو تحریری یا الیکٹرانک طریقے سے ’غیر قانونی مواد‘ کی نشاندہی کی جائے گی تو وہ اسے 24 گھنٹے جبکہ ہنگامی صورتحال میں 6 گھنٹوں میں ہٹانے کے پابند ہوں گے۔

علاوہ ازیں ان کمپنیوں کو آئندہ 3 ماہ کے عرصے میں عملی پتے کے ساتھ اسلام آباد میں رجسٹرڈ آفس قائم کرنا ہوگا۔

اس کے ساتھ ان کمپنیوں کو 3 ماہ کے عرصے میں پاکستان میں متعلقہ حکام سے تعاون کے لیے اپنا فوکل پرسن تعینات کرنا اور آن لائن مواد کو محفوظ اور ریکارڈ کرنے لیے 12 ماہ میں ایک یا زائد ڈیٹا بیس سرورز قائم کرنا ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں