ٹرمپ کا دورہ بھارت: شہریت قانون کے خلاف احتجاج، پولیس اہلکار سمیت 4 ہلاک

اپ ڈیٹ 25 فروری 2020
نئی دہلی میں پولیس نے مظاہرین پر بدترین تشدد کیا—فوٹو:رائٹرز
نئی دہلی میں پولیس نے مظاہرین پر بدترین تشدد کیا—فوٹو:رائٹرز

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد سے قبل ہی متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے دوران تصادم میں ایک پولیس اہلکار اور 3 مظاہرین ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر دو روزہ دورے پر بھارت پہنچے لیکن نئی دہلی میں مظاہرین کے غصے میں مزید شدت آگئی ہے اور اتوار کو شدید مظاہرے ہوئے تھے جو دوسرے روز بھی جاری رہے۔

خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے بنایا گیا متنازع شہریت قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج دسمبر میں شروع ہوا تھا اور اب تک پولیس کے ساتھ تصادم میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیں:بھارت:متنازع قانون کے خلاف احتجاج پر پولیس کی خواتین سے بدتمیزی، بہیمانہ تشدد

بھارت میں مسلمانوں نے اس متنازع قانون کو مسلم برادری کے خلاف قرار دیتے ہوئے احتجاج شروع کیا تھا اور امریکا سمیت دنیا بھر میں اس قانون پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی بھارت کی سیکولر شناخت کو ختم کرکے ملک کو ہندو قوم پرست ملک بنانا چاہتے ہیں اور 20 کروڑ مسلمانوں کی تعداد کو کم کرنا چاہتے ہیں جبکہ مودی نے ان تاثرات کو مسترد کردیا تھا۔

بھارت میں ہزاروں مظاہرین اور متنازع قانون کے حامیوں کے درمیان تازہ جھڑپیں اتوار کو شروع ہوئی تھیں جو دوسرے روز بھی جاری رہیں۔

رپورٹ کے مطابق نئی دہلی میں ہونے والے تصادم میں ایک پولیس افسر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوگیا۔

نئی دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے ٹویٹر میں درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ‘کشیدگی کو ختم کریں، اس سے کسی کو فائدہ نہیں ملے گا، تمام مسائل پرامن طریقے سے حل ہوں گے’۔

نائب وزیراعلیٰ منیش سیسودیا کا کہنا تھا کہ ‘دہلی کے شمالی حصے میں منگل کو اسکول بندہوں گے اور امتحانات کو بھی ملتوی کردیا گیا ہے’۔

بھارتی خبرایجنسی پریس ٹرسٹ انڈیا کے مطابق مظاہرین نے دو گھروں اور دکانوں کو آگ لگا دی جبکہ مقامی ٹی وی کا کہنا تھا کہ عمارت سے دھواں اٹھ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت: عدالت کا شاہین باغ کے مظاہرین کو فوری ہٹانے کا فیصلہ دینے سے انکار

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مغربی ریاست گجرات پہنچے تھے جہاں انہوں نے عوام کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا جس کے بعد آگرہ میں تاج محل کا بھی دورہ کیا، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی ریلی میں ان کے ساتھ تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ بعد میں دہلی پہنچے جہاں دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔

امریکا کے سینئر عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ ڈونلد ٹرمپ اپنے دورے میں ہندو اکثریتی ملک میں مذہبی آزادی کے حوالے سے تشویش سے آگاہ کریں گے اور مذہبی آزادی کو موجودہ انتظامیہ کے لیے انتہائی اہم قرار دے دیا۔

شہریت قانون اور اس کے خلاف احتجاج

واضح رہے کہ گزشتہ برس 11 دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ سے شہریت ترمیمی ایکٹ منظور ہوا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی جبکہ اس فہرست میں مسلمان شامل نہیں۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

مذکورہ قانون کو 12 دسمبر کو بھارتی صدر کی جانب سے منظوری دے دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت: ہندو قوم پرست نے 'یہ لو آزادی' کہہ کر مظاہرین پر فائرنگ کردی

خیال رہے کہ بھارت کی لوک سبھا اور راجیا سبھا نے متنازع شہریت ترمیمی بل منظور کر لیا تھا جس کے بعد سے ملک بھر میں خصوصاً ریاست آسام میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

اس قانون کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا تھا کہ مرکز اس کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

علاوہ ازیں 9 جنوری کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو متنازع شہریت قانون کے نفاذ پر سخت احتجاج کے باعث بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنا آسام کا دورہ منسوخ کرنا پڑگیا تھا۔

اس سے قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے متنازع شہریت قانون کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ممبئی میں ایک اجلاس منعقد کروایا تھا جس میں نامور فلمی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا تاہم ایک بھی اداکار یا اداکارہ نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔

سینئر اداکار نصیر الدین شاہ، جاوید جعفری سمیت بھارت کی کئی نامور شخصیات نے بھی اس متنازع قانون کے خلاف آواز اٹھائی ہے جبکہ اب تک بولی وڈ کے مشہور خانز کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں