ایرانی وزیر خارجہ کا دہلی فسادات سے متعلق بیان، بھارت میں ایرانی سفیر طلب

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2020
ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف —فائل فوٹو: اے ایف پی
ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف —فائل فوٹو: اے ایف پی

بھارت نے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے دہلی فسادات کے حوالے سے بیان پر احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے ایرانی سفیر کو طلب کیا اور خبردار کیا کہ ایرانی وزیر خارجہ کا بیان بھارت کے داخلی امور میں مداخلت کے مترادف ہے۔

واضح رہے کہ جواد ظریف نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں بھارتی حکام پر زور دیا تھا کہ وہ دہلی میں پرتشدد واقعات پر بے حسی کا مظاہرہ نہ کرے۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'ایران بھارتی مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کی لہر کی مذمت کرتا ہے'۔

اس ضمن میں بھارت نے مذکورہ معاملہ دہلی میں ایرانی سفیر کے سامنے اٹھایا اور جواد ظریف کے بیان کی مذمت کی۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا تھا کہ 'کئی دہائیوں سے ایران اور بھارت دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اس لیے ہم بھارتی حکام پر زور دیتے یں کہ وہ تمام بھارت کی دیکھ بھال کرے اور بے حس ٹھگوں کو کھلی آزادی نہ دیں'۔

جواد ظریف نے کہا تھا کہ 'پر امن مذاکرات اور قانون کی بالا دستی سے ہی مثبت نتائج سامنے آئیں گے'۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے بھارتی وزارت خارجہ کے امور کے ترجمان نے عالمی رہنماؤں اور اداروں پر زور دیا تھا کہ بھارت کے اندر حساس نوعیت کے معاملات پر بیان بازی سے گریز کریں۔

مزید پڑھیں: بھارت: مذہبی فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 42 ہوگئی

اس سے قبل بھارت نے ترک صدر رجب طیب اردوان کے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بیان پر سفارتی احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے ترک سفیر کو طلب کیا اور خبردار کیا تھا کہ اس کے باہمی تعلقات پر سخت نتائج سامنے آئیں گے۔

واضح رہے کہ ترک صدر نے دو روزہ دورہ پاکستان کے موقع پر پہلی کشمیری جنگ کے دوران غیر ملکی قبضے کے خلاف ترک عوام کی جدوجہد کے ساتھ 'کشمیری عوام کی جدوجہد' کا موازنہ کیا تھا۔

دورے کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ سو سال پہلے ترکی میں جو ہوا تھا اسے آج مقبوضہ کشمیر میں دہرایا جارہا ہے۔

بھارت میں حالیہ فسادات

خیال رہے کہ 23 فروری کو انتہا پسند ہندوؤں نے مسلم محلوں پر حملہ کرتے ہوئے وہاں آگ لگادی تھی اور مساجد کو اور مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔

ان حملوں کے دوران ہجوم کی جانب سے متعدد لوگوں کو زندہ جلا دیا یا تشدد کرکے موت کی نیند سلادیا گیا تھا جس کے باعث مجموعی طور پر 42 افراد ہلاک ہوئے اور ان میں بیشتر مسلمان تھے جبکہ پرتشدد واقعات کے نتیجے میں درجنوں افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔

ان پرتشدد کارروائیوں کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کی سازش صریح تھی کیونکہ حملوں کے دوران پولیس آیا کھڑی رہی یا ہجوم کے ساتھ رہی، اس کے علاوہ ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں زخمی مسلمانوں کو پولیس اہلکاروں کی جانب سے زمین پر بیٹھنے اور حب الوطنی کے گانے گانے پر مجبور کیا جارہا تھا جو پولیس اور حملہ آوروں کے درمیان گٹھ جوڑ کو عیاں کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نئی دہلی میں مذہبی فسادات پر بولی وڈ شخصیات کا اظہار افسوس

یہی نہیں بلکہ ہجوم کے کچھ رہنما بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کی تعریف کرتے بھی نظر آئے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کی مذمت بھی نہیں کی۔

علاوہ ازیں یہ بھی تصور کیا جارہا کہ یہ حملے آر ایس ایس کے کارکنوں کی جانب سے کیے گئے اور انہیں متنازع شہریت قانون کے خلاف دسمبر سے ہونے والے احتجاج کا جواب کہا جارہا۔

تبصرے (0) بند ہیں