کورونا وائرس سے لڑنے میں عالمی سطح پر طبی آلات کی قلت کا خدشہ

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2020
عالمی ادارہ صحت نے کمپنیوں اور حکومتوں سے طبی آلات کی پیداوار 40 فیصد تک بڑھانے پر زور دیا۔ — فائل فوٹو:اے پی
عالمی ادارہ صحت نے کمپنیوں اور حکومتوں سے طبی آلات کی پیداوار 40 فیصد تک بڑھانے پر زور دیا۔ — فائل فوٹو:اے پی

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے حفاظتی آلات کی قیمت بڑھ سکتی ہے اور عالمی سطح پر اس کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے پر ڈبلیو ایچ او نے کمپنیوں اور حکومتوں پر زور دیا کہ وہ ان کی پیداوار 40 فیصد تک بڑھائیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: سعودی عرب میں خلیجی ریاستوں کے باشندوں کے داخلے پر پابندی

عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سے سرجیکل ماسک کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ این 95 ماسک کی قیمت میں 3 گنا اضافہ ہوا ہے اور حفاظتی گاؤنز کی قیمت بھی دُگنی ہوگئی ہے۔

'کووڈ-19 کے 3.4 فیصد تصدیق شدہ کیسز موت کا شکار ہوئے'

ادھر عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کووڈ-19 کے 3.4 فیصد تصدیق شدہ کیسز ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ موسمی فلو سے ہلاکتوں کی شرح ایک فیصد ہے تاہم اسے روکا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے تیدروس ادھانوم نے جینیوا میں میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 'کووڈ-19 سے زیادہ فلو کا پھیلاؤ موثر ہے، اس کی منتقلی بظاہر بیمار عوام سے نہیں ہوتی، یہ اس فلو سے زیادہ سنگین بیماریاں ہوتی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کی کوئی ویکسین نہیں ہیں تاہم اسے روکا جاسکتا ہے'۔

خیال رہے کہ صحت حکام کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی شرح 2 فیصد سے 4 فیصد ہے اور اگر بیماری سے ہزاروں کم اثر انداز ہونے والے افراد بھی سامنے آئیں تو اس سے ہلاکتوں کی تعداد مزید کم ہوگی۔

واضح رہے چین کے شہر ووہان سے دنیا کے 73 ممالک میں پھیلنے والے کورونا وائرس کے سبب 3 ہزار سے زائد افراد ہلاک جبکہ مجموعی طور پر 93 ہزار سے زائد متاثر ہوچکے ہیں۔

چین میں سب سے زیادہ متاثرین موجود ہیں جہاں سے وائرس پھیلا تھا جس کے بعد جنوبی کوریا کا نمبر آتا ہے جہاں 5 ہزار 328 متاثرین کی تصدیق کی گئی ہے۔

کورونا وائرس ہے کیا؟

کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے جو مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔

کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ’پی ایس ایل کی وجہ سے کورونا کیسز چھپانے کی بات بالکل غلط ہے‘

ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔

عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔

ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔


کورونا وائرس سے متعلق مزید اہم خبروں کے لیے یہاں کلک کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں