نئے نوول کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی انسانوں پر آزمائش برطانیہ اور امریکا میں اپریل سے شروع ہورہی ہے۔

برطانیہ کے امپرئیل کالج کی جانب سے فروری کے وسط سے جانوروں پر ایک ویکسین کی آزمائش ہورہی ہے اور اس کے بعد اپریل سے انسانوں پر اس کا ٹرائل شروع ہوگا۔

دوسری جانب امریکی کمپنی موڈرینا اورانویو نے بھی بتایا ہے کہ ان کی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش اگلے ماہ سے شروع ہوسکتی ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں چھٹا کیس 5 مارچ کو سامنے آیا جبکہ دنیا بھر میں کورونا وائرس 97 ہزار سے زائد افراد متاثر جبکہ 33 سو سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں اور اب تک اس کا علاج دستیاب نہیں ہوسکا ہے۔

جن افراد کو اس وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19کا سامنا ہوتا ہے انہیں الگ تھلگ کرکے ان کی علامات کے مطابق ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔

امپرئیل کالج کی جانب سے جنوری کے وسط میں اس وقت ویکسین کی تیاری پر کام شروع کردیا گیا تھا جب چینی سائنسدانوں نے اس نئے وائرس کی جینیاتی معلومات جاری کی تھی۔

اگر انسانوں پر اس کی آزمائش کامیاب ہوئی تو محققین کی جانب سے اس ویکسین کو حقیقی دنیا میں ایسے افراد پر آزمایا جائے گا جن میں اس انفیکشن کا خطرہ ہوگا۔

امپرئیل کالج کے پروفیسر روبن شٹوک اور ان کی ٹیم نے چین سے وائرس کا جینیاتی سیکونس ملنے کے بعد 14 دن میں اس ویکسین کو تیار کیا تھا اور 10 فروری سے جانوروں پر اس کی آزمائش کی جارہی تھی۔

روایتی اینٹی باڈی ویکسین کے برعکس امپرئیل کالج کی ویکسین نئے جینیاتی کوڈ کو مسل میں انجیکٹ کی جاتی ہے جسے ایسے پروٹین سے تیار کیا گیا ہے جو کورونا وائرس کی سطح پر دریافت ہوا ہے جس سے جسم میں ایک حفاظتی مدافعتی ردعمل پیدا ہوسکے گا۔

پروفیسر روبن کے مطابق ہمارے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جو کسی ویکسین کو اس رفتار سے بنانے میں مدد دیتی ہے جس کا احساس پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا، بیشتر ویکسینز کی دریافت کا مرحلہ 5 سے 6 سال میں مکمل ہوتا ہے، پھر ایک سے 2 سال تک تیاری اور پھر ٹرائلز شروع ہوتے ہیں۔

ویسے یہ برطانیہ کی واحد یونیورسٹی نہیں درحقیقت کئی یونیورسٹیوں کی جانب سے ویکسین کی تیاری پر کام ہورہا ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کی وائرل زونیٹیکس لیبارٹری کے پروفیسر جوناتھن ہینی کے مطابق ان کی ٹیم ویکسین کے پری کلینیکل مرحلے میں ہے اور تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

اسی طرح آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے بھی ایک ویکسین پر کام ہورہا ہے۔

اس سے قبل گزشتہ دنوں مختلف ادویات ساز کمپنیوں کے وفد نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کرکے ویکسینز اور اینٹی وائرل ادویات کی فوری تیاری کو یقینی بنانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

اس وقت تک 35 کمپنیاں اور ادارے دنیا بھر میں اس حوالے سے کام کررہے ہیں۔

یو ایس نیشنل انسٹیٹوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشیز ڈیزیز کے سربراہ ڈاکٹر انتھونی فیوسی نے بتایا کہ انسانی ٹرائلز کا آغاز 6 ہفتوں کے اندر ہوسکتا ہے جبکہ ویکسین 12 سے 18 ماہ کے دوران تیار ہوسکتی ہے۔

انویوکمپنی کے سی ای او کے مطابق ان کی ویکسین کی جانوروں پر آزمائش ہورہی ہے اور رواں سال کے اختتام تک اس کے 10 لاکھ ڈوز دستیاب ہوں گے۔

ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی جانب سے اپریل میں 45 افراد پر ویکسین کی آزمائش شروع ہوگی اور اس کا کہنا ہے کہ اگلے سال فروری تک یہ ویکسین عام دستیاب ہوگی۔

اسی طرح کئی امریکی کمپنیاں اگلے چند ماہ کے دوران اپنی اپنی ویکسینز کی آزمائش انسانوں پر شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

کوئنز لینڈ یونیورسٹٰ کی جانب سے ویکسین کو جانوروں پر آزمایا جارہا ہے جبکہ ایک اسرائیلی ادارہ اگلے 8 سے 10 ہفتوں میں انسانوں پر ٹیسٹ شروع کرنے والا ہے۔

چین کے نائب وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شو نان پنگ نے بھی تصدیق کی ہے کہ اپریل کے آخر تک انسانوں پر ایک ویکسین کی آزمائش شروع ہوجائے گی۔

مگر کسی موثر ویکسین کی تیاری میں کافی وقت درکار ہے اور ہوسکتا ہے کہ آغاز میں یہ صرف طبی عملے اور شدید بیمار افراد کے لیے مخصوص ہو، یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے ادویات کی تیاری پر بھی کام ہورہا ہے۔

اب تک اس حوالے سے سب سے بہتر remdesivir نامی انٹی وائرل دوا کو قرار دیا جارہا ہے جس کی آزمائش یو ایس نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ میں 13 مریضوں پر ہورہی ہے۔

چین کی جانب سے ایک اینٹی وائرل دوا Favilavir کے استعمال کی بھی منظوری دی گئی ہے جبکہ وہاں Chloroquine، Phosphate اور Remdesivir کی بھی آزمائش ہورہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں