عالمی یوم خواتین کے مناسبت سے 8 مارچ کومنعقد ہونے والی 'عورت مارچ' کی منتظمہ ڈاکٹر حائفہ ناصر نے کہا کہ ہمارے 15 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈز کسی ایک شخص یا گروہ نے تشکیل نہیں دیے۔

ڈان ٹی وی کے پروگرام 'نیوز وائز' میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر حائفہ ناصر نے بتایا کہ چارٹر آف ڈیمانڈز کی تشکیل سازی میں پاکستان کے تمام پسے ہوئے طبقوں کی نمائندگی اور ان کے حق کے لیے بات کی گئی ہے۔

مزیدپڑھیں: عورت مارچ: چینلز کو 'قابل اعتراض مواد' نشر کرنے سے متعلق پیمرا کا انتباہ

انہوں نے کہا کہ ہمارے پہلے مطالبے کا تعلق عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے منسلک پالیسیوں کے بارے میں ہے جس کے باعث مہنگائی اپنے عروج اور ورکنگ کلاس کے لیے جینا مشکل ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر حائفہ ناصر نے کہا کہ 'اس مہنگائی میں شاید مجھے یا آپ (میزبان) کو فرق نہ پڑے لیکن عوام پس رہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ایک مطالبہ تنخواہ سے متعلق ہے جس میں کہا گیا کہ کم از کم تنخواہ 40 ہزار مقرر کی جائے اور مطالبے کا تعلق صرف خواتین کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے ہے'۔

ڈاکٹر حائفہ ناصر نے بتایا کہ بیشتر دفعہ ایسا ہوا کہ جنسی ہراسانی کے متاثرین اگر ہمت کرکے سامنے بھی آجائیں تو تاخیر کی وجہ سے شواہد مقدمے میں پیش کرنا ناممکن ہوجاتے ہیں اور نتیجے میں ملزمان ہی متاثرہ خاتون پر ہتک عزت کا مقدمہ کردیتے ہیں'۔

انہوں نے کہا ہتک عزت کے قانون میں ایسی کوئی شق نہیں جو متاثرہ خواتین یا شخص کو تحفظ فراہم کرے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے ’عورت مارچ’ رکوانے کی درخواست خارج کردی

پلے کارڈ پر قابل اعتراض نعرے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'عورت مارچ کوئی تنظیم یا گروپ نہیں جو اس بات کا تعین کرے کہ کون اس کا حصہ بنے گا اور کون نہیں'۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 'اگر خواتین کو کسی بات کے اظہار کے لیے روکیں تو تکنیکی طور پر ہم بھی وہ ہی کام کررہے ہوں گے جو لوگ ہمارے خلاف کرتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے اپنے سوشل میڈیا فورم کے ذریعے کچھ گائیڈ لائنز دی ہے جس میں خواتین کو کہا گیا ہے کہ وہ پلے کارڈز پر غیر اخلاقی نعروں سے گریز کریں'۔

عورت مارچ کے لیے غیرملکی فنڈنگ سے متعلق سوال کے جواب میں عورت مارچ کی منتظمہ نے کہا کہ یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ غیرملکی فنڈنگ کا جواز بنا کر ہمارے خلاف پٹیشن دائر کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ پٹیشن سے محض دو دن پہلے ہی ہم نے عورت مارچ کے لیے فنڈز جمع کرنے کے لیے ایونٹ کیے جہاں میں نے خود اپنے ہاتھ سے بنائے بیجز 300 روپے میں فروخت کیے۔

مزیدپڑھیں: شیریں مزاری کی ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کے بیانات کی مذمت

علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ پوسٹر پینٹ کرانے کے لیے لڑکیاں اپنی جیب خرچ سے عطیہ کرتی ہیں اور ہمارے لگائے گئے پوسٹر ایک ہی رات میں پھاڑ دیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر حائفہ ناصر نے واضح کیا کہ عورت مارچ کے لیے بیرون ملک سے کسی ادارے کی طرف سے کوئی فنڈنگ نہیں ہورہی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے الیکڑونک میڈیا کو عورت مارچ کی کوریج میں 'پلے کارڈز پر قابل اعتراض مواد یا غیر اخلاقی نعرے' نشر کرنے سے خبردار کیا تھا۔

پیمرا نے 8 مارچ کو منائے جانے والے عالمی یوم خواتین کی کوریج سے متعلق ایک ایڈوائزری جاری کی جس میں قابل اعتراض یا غیر اخلاقی نعرے یا مواد نشر کرنے سے متنبہ کیا گیا۔

علاوہ ازیں پیمرا نے چینلز پر زور دیا تھا کہ وہ اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں کہ اس طرح کے متنازع مواد کو نشر کرنا مجموعی طور پر قابل قبول شائستگی کے معیارات کے منافی ہونے کے ساتھ مذہبی، معاشرتی، ثقافتی اصولوں اور عوام کے جذبات کے منافی ہے۔

ایڈوائزری میں مزید کہا گیاتھا کہ اس طرح کے فحش/نامناسب مواد کو نشر کرنا ٹی وی چینلز پر دیکھنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان بھر میں آئندہ ہفتے 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کے موقع پر ملک بھر میں ’عورت مارچ‘ منعقد کیے جائیں گے اور اس حوالے سے تیاریاں جاری ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ سال سے ’عورت مارچ‘ کے انعقاد کا سلسلہ شروع ہوا اور ’عورت مارچ‘ کے حوالے سے کافی تنقید بھی سامنے آئی۔

مزیدپڑھیں: ’عورت مارچ‘ پر بحث،خلیل الرحمٰن قمر کا ماروی سرمد کیخلاف نازیبا زبان کا استعمال

ماضی کی طرح اس سال بھی ’عورت مارچ‘ شروع ہونے سے قبل ہی اس پر تنقید کی جا رہی ہے اور مختلف سیاسی و سماجی رہنما اس حوالے سے اپنے بیانات دے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ رواں ماہ کی 5 تاریخ کو پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے 3 مارچ کی شب 'عورت مارچ' پر کیے گئے پروگرام کے دوران انتہائی بیہودہ گفتگو پر مشتمل پروگرام نشر کرنے والے نجی ٹی وی چینل ’نیو‘ ٹی وی اور اسی چینل کے پروگرام کا ویڈیو کلپ چلانے والے چینل ’جیو‘ کو نوٹس جاری کردیا تھا۔

نیو ٹی وی کے پروگرام ’آج عائشہ احتشام کے ساتھ‘ میں 3 مارچ کی شب ’عورت مارچ‘ پر ایک پروگرام کیا گیا تھا جس میں ڈراما نویس خلیل الرحمٰن قمر اور صحافی ماروی سرمد کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی تھی اور ڈراما نویس نے خاتون کے لیے انتہائی نامناسب زبان استعمال کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں